جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کی اصل محرک کا انتقال’’ ۔ ابویحییٰ
’’میں تہجد میں اٹھ کر یہ دعا مانگ رہی ہوں کہ میری زندگی بھی آپ کو لگ جائے۔‘‘
اس دنیا میں کس میں یہ حوصلہ ہے کہ کسی غیر سے یہ بات کہے۔ مگر مجھ سے یہ جملہ کہنے والی بہن بہت چھوٹی عمر میں اس دنیا کو چھوڑ کر اپنے خالق و مالک کے حضور لوٹ چکی ہے۔
یہ سن دو ہزار دس کی ابتدا کا ذکر تھا۔ میں ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ مکمل کرچکا تھا۔ مگر اس کی اشاعت کے حوالے سے میں ایک گومگوں کی کیفیت میں تھا۔ پھر ایک روز اچانک پتہ چلا کہ مجھے ایک مہلک مرض نے آگھیرا ہے۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ یہ اگر میری زندگی کا اختتام ہے تو پھر یہ کتاب ایک امانت ہے جسے لوگوں تک ہر حال میں پہنچنا چاہیے۔ سو اس کی اشاعت کا فیصلہ کرلیا گیا۔
اس کا فون آیا تو اسے اس فیصلے سے مطلع کیا تو بہت خوش ہوئی۔ وجہ اشاعت یہ بتائی کہ مرنے سے پہلے کچھ نہ کچھ تو کرنا چاہیے۔ اس پر بہت دل گرفتہ ہوئی۔ وہ جملہ کہا جو اوپر نقل ہوا ہے۔ میں اس بات پر بہت ناراض ہوا۔ مگر کیا کیجیے وہ جینے کا ارادہ شاید پہلے ہی چھوڑ چکی تھی۔ شاید اس وقت جب میں نے ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کے ابتدائی چند ابواب اسے پڑھنے کے لیے بھجوائے تھے۔
یہ چند ابواب بس ایسے ہی رواروی میں بیٹھ کر لکھ دیے تھے۔ انہیں کسی مکمل کتاب کے قالب میں ڈھالنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مگر اس تک پہنچے تو اس کی دنیا تلپٹ ہوگئی۔ اتنا زیادہ اثر لیا کہ بہت شدید بیمار ہوگئی۔ فون پر کہا کہ اب زندہ رہنے کا دل نہیں چاہتا۔ اس طرح کی باتوں پر اسے میرے ہاتھوں ڈانٹ پڑتی رہتی تھی۔ اس ڈانٹ کا اثر بھی ہوجایا کرتا تھا۔ خیر ڈانٹا، بہت سمجھایا۔ وہ ٹھیک ہوئی تو میرے پیچھے لگ گئی کہ کتاب پوری کریں۔ اصرار اور طرف سے بھی تھا، مگر اس نے تو ناک میں دم کر دیا تھا۔ یوں اللہ تعالیٰ نے وہ کتاب مکمل کرا ہی دی جس نے نجانے کتنے لوگوں کو آخرت کی زندگی سے متعارف کرایا۔ اور اب اس کتاب کی تکمیل کی اصل محرک خود اس دنیا کا حصہ بن چکی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی۔
وہ بے حد حساس تھی۔ جتنی حساس تھی اتنے ہی زندگی میں دکھ جھیلے تھے۔ شادی شدہ تھی۔ مگر شادی شدہ زندگی جن سکھوں سے عبارت ہوتی ہے وہ اس کی زندگی میں موجود نہیں تھے۔ وہ اپنا ہر دکھ مجھے سناتی تھی۔ میں صبر کی تلقین کرتا۔ مگر وہ گھلتی گئی۔ جلتی ہوئی شمع کی طرح پگھلتی گئی۔ اور ایک روز ہمیشہ کے لیے یہ شمع بجھ گئی۔
اس کی زندگی بھی ایک شمع کی مانند تھی۔ ہمیشہ دوسروں کے دکھوں کے لیے پریشان رہتی۔ ہر طرح سے دوسروں کی مدد کرتی۔ دین کا ذوق اور فہم بہت اچھا تھا۔ خواتین میں دین کی اتنی اچھی سمجھ میں نے شاذ ہی کبھی دیکھی تھی۔ اس کے اردگرد کے سارے لوگ اس سے دینی سوالات کرتے۔ وہ جواب دے دیتی۔ پھر احتیاطاً مجھے فون کر کے کنفرم کرتی کہ صحیح بات بتائی ہے یا کوئی غلطی کی ہے۔ مجھے نہیں یاد کہ کبھی ایسا ہوا ہو کہ اس نے کسی کو غلط جواب دیا ہو۔ میں اس کی زندگی میں آنے والی ہر محرومی کے جواب میں یہ کہتا کہ اللہ نے تمھیں دنیا داری کے لیے نہیں دین کی خدمت کے لیے پیدا کیا ہے۔
مطالعے کی بے حد شوقین تھی۔ جیب خرچ میں ملنے والی بیشتر رقم کتابیں خریدنے پر خرچ کر دیتی اور شوہر سے بہت ڈانٹ کھاتی۔ زندگی کے آخری دنوں میں ایک روز اس نے مجھے فون کیا۔ وہ بہت دکھی ہوتی تو مجھے ہی فون کرتی تھی۔ وہ مطالعہ نہیں کرپا رہی تھی کہ چشمہ ٹوٹ گیا تھا اور شوہر سے بار بار کہہ رہی تھی کہ چشمہ بنوا دو۔ جواب میں اسے تھپڑ کھانے کو ملا۔ یہ واقعہ سنا کر وہ بہت روئی۔ میں نے اسے بہت تسلی دی لیکن اِس روز فون بند کر کے میں بھی رو پڑا۔
وہ اپنے شوہر سے دیوانہ وار عشق کرتی تھی۔ شوہر نے دوسری شادی کا ارادہ کرلیا۔ وہ یہ برداشت نہیں کرسکی۔ خود کو روگ لگا بیٹھی۔ بڑے حوصلے سے شوہر کی دوسری شادی کو دیکھا۔ شادی کی ساری شاپنگ خود کرائی۔ مگر وہ اتنی بہادر نہیں تھی جتنی نظر آنے کی کوشش کرتی تھی۔ اس لیے چند ماہ بھی نہ جی سکی۔ گرچہ دوسری لڑکی بھی اچھی تھی۔ مگر وہ شرکت گوارا کرنے کی روادار نہیں تھی۔ میں نے شادی سے پہلے ہی بہت سمجھایا تھا کہ شوہر کو دوسری بیوی کے حوالے کر کے خود کو اللہ کے لیے وقف کر دو۔ مجھے معلوم تھا کہ اللہ کو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ اس کی ضرورت تھی کہ اس کا دھیان دوسری سمت بٹ جائے کاش ہندوستانی پس منظر کی ہماری بہنیں یہ سمجھ لیں کہ شوہر اتنا قیمتی نہیں ہوتا کہ اس کے لیے اپنی جان کو روگ لگایا جائے۔ زندگی میں شوہر کے سوا بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔ مگر اس کی زندگی میں اور کچھ تھا بھی نہیں۔ میں کتنی باتوں کا رازدان ہوں، مگر اس نے وعدہ لیا تھا کہ خاموش رہوں گا۔ سو میں خاموش ہی ہوں۔
میرے لیے بس ذاتی اطمینان کی ایک ہی بات ہے۔ اس نے ہمیشہ مجھ سے دوسروں کے لیے مدد مانگی تھی۔ اپنے لیے کبھی کچھ نہیں مانگا تھا۔ بلکہ الٹا میرے اور میری بیوی بچے کے لیے تحفے بھیجتی رہتی تھی۔ آخری دنوں میں جب ڈاکٹروں نے ہسپتال سے جواب دے کر گھر بھیج دیا تھا تواپنی بہن کے ذریعے سے اس نے مجھ سے فرمائش کی تھی کہ میں اسے وہیل چئیر خرید کر لے دوں۔ وہ اسلام آباد میں تھی اور میں ہزار میل دور بیٹھا تھا۔ پھر بھی میں نے ایک اور دینی بہن فریدہ سے رابطہ کر کے اس کے گھر بھیجا۔ فریدہ نے جو حالات بتائے اس سے صاف ظاہر تھا کہ اب اسے وہیل چیئر کی کوئی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی۔ مگر ایک بھائی کو بہرحال بہن کا مان رکھنا تھا۔ بھلا ہو برادرم ندیم اعظم کا کہ انہوں نے میرے ایک فون پر اگلے ہی دن وہیل چیئر اس کے پاس پہنچوا دی۔
پھر آج اس کی وفات کے ایک ہفتے بعد فریدہ کو معلوم ہوا اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ دنیا چھوڑ کر جاچکی ہے۔ ایک گہرے کرب نے مجھے گھیر لیا ہے۔ یہ وہ دن ہیں جب ایک دفعہ پھر میں ہزاروں برس پر پھیلی فلسفے کی تاریخ کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ یہ فلسفی ہر چیز کا جواب برا بھلا دے رہے ہیں۔ مگر ایک چیز ان کے احاطہ تصور سے باہر ہے۔ یہ آخرت کی وہ زندگی ہے جس کے بغیر اس دنیا کی کسی پہیلی کو سلجھایا نہیں جاسکتا۔ اس دنیا میں دکھ کیوں ہیں؟ موت کیوں ہے؟ اعلیٰ انسان اس قدر بے بسی سے زندگی گزار کر کیوں مرجاتے ہیں؟
باخدا آخرت نہ ہو تو خدا پر ایمان لانا بھی ممکن نہیں۔ یہی ایمان ہے جو کرب کے ان لمحات میں مجھے یقین دلا رہا ہے کہ مرنے والی نے اپنے بدترین دن دیکھ لیے ہیں۔ اب اس کی زندگی میں کوئی دکھ اور کوئی محرومی نہیں آئے گی۔ رحمت خداوندی نے فردوس بریں میں اسے رب سے نزدیک جگہ دے دی ہے۔ وہ مجھ سے کہتی تھی کہ میں حضرت آسیہ کی طرح اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ اپنے پاس میرا گھر بنا دیں۔ ایسے دکھی لوگوں کی دعا اللہ تعالیٰ ضرور سنتے ہیں۔ اس لیے اس کا گھر بنا دیا گیا تھا، مگر وہ گھر ہی کیا جس میں مکین نہ ہو۔ مالک ذوالجلال نے فیصلہ کیا اس بے رونق گھر کو رونق بخش دی جائے۔ سو گھر والی کو بلالیا گیا۔ یہ اس کی موت نہیں ہے۔ اس کی زندگی اب شروع ہوئی ہے۔