اسلام اور خلافت ۔ ابویحییٰ
۱ ۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر
۲ ۔ رسول اور ان کی اقوام
۳ ۔ روم و ایران کے خلاف صحابہ کا جہاد
اس وقت ہمارے ملک میں بیانیے کی ایک بحث جاری ہے۔ اس بحث کا تناظر پاکستان میں جاری وہ دہشت گردی ہے جس نے پچھلے کئی برسوں میں تقریبا ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کی جانیں لے لی ہیں۔ احباب کی طرف سے یہ تقاضہ سامنے آیا ہے کہ میں اس موضوع پر اظہار خیال کروں۔ خاص کر وہ احباب جو مجھے براہ راست جانتے ہیں اور جنھوں نے میری کتاب ’’تیسری روشنی‘‘ پڑھ رکھی ہے، ان کا خیال ہے کہ چونکہ میں ایک طالب علم کی طرح اس خاص بحث سے بہت پہلے گزر چکا ہوں، اس لیے مجھے اپنی فکری دریافت لوگوں کے ساتھ ضرور شیئر کرنی چاہیے۔
ایمان اور عصبیت
اِدھر میرا معاملہ یہ ہے کہ عرصہ ہوا میں نے اس قوم کے اصل مرض کی تشخیص یہ کی ہے کہ یہاں ایمان کے بجائے تعصبات و خواہشات اور عمل صالح اور اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے کچھ اور چیزیں دین داری کا معیار بن چکی ہیں۔ چنانچہ کرنے کا کام ان چیزوں کی اصلاح ہے۔ ورنہ ان فکری بحثوں کا نتیجہ بارہا یہ نکلتا ہے کہ ایک گروہ تو اندھا مخالف بن کر کھڑا ہوجاتا ہے اور دلیل و استدلال سے آگے بڑھ کر نیت اور محرکات کے فیصلے کر کے مہم جوئی شروع کر دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے لوگوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تعصب سے نکل کر دوسرے تعصب میں چلے جاتے ہیں اور ایک گروہ کے بجائے دوسرے گروہ کی عصبیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جبکہ دین کا اصل مقصد تو اعلیٰ اخلاق کے حامل ایسے انسان پیدا کرنا ہے جو ہر طرح کے تعصبات اور خواہشات سے بلند ہوکر اللہ کی رضا کو اپنا مقصد بنالیں۔ جنت کی بادشاہی، لاریب، انھی لوگوں کی منزل ہے۔ یہی کام جو بظاہر ’’ہاٹ‘‘ نہیں، نہ اس میں زیادہ شہرت اور ناموری ملتی ہے، اس عاجز نے اپنے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ کسی اور مصروفیت کی اجازت نہیں دیتا۔
پھر یہ کہ آج کل میں نے ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ اور ’’قسم اس وقت کی‘‘ کے بعد اس سلسلے کے تیسرے ناول پر کام شروع کر دیا ہے۔ یہ ناول نگاری میری ڈھیر ساری مصروفیات کے ساتھ بہرحال ایک مشکل کام ہے۔ مگر کیا کروں کہ ابھی تک اس طرز نگارش کی پہنچ کسی بھی دوسرے ذریعہ سے زیادہ ہی ثابت ہوئی ہے۔ اس لیے کچھ اہم باتیں جو کہنی ہیں وہ اسی تیسرے ناول کے ذریعے سے لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
ایسے میں کسی فکری بحث میں اترنا جس توجہ اور وقت کا طالب ہے، اس کی دستیابی آسان نہیں۔ مگر بعض احباب نے میری خاموشی کو ’’کتمان حق‘‘ قرار دے دیا تو مجبوراً مجھے اس معاملے میں کچھ مختصر گزارشات پیش کرنا پڑ رہی ہے۔ کسی بحث یا جوابی بحث میں الجھنا اس خاکسار کے پیش نظر نہیں۔ میں گرچہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ایک داعی ہوں لیکن میں اپنے مالک کے عطا کردہ دین کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی ہوں۔ طالب علمانہ طریقے پر یہ جانتا ہوں اور بیان کرسکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین سے متعلق کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں۔ اور اگر ان کی بات ہی ٹھیک طور پر سامنے نہیں آرہی تو اس کا سامنے لانا بہرحال ایک ذمہ داری ہے۔
تاہم میں ہمیشہ اس کے لیے تیار رہتا ہوں کہ ہوسکتا ہے کہ میں ہی غلط ہوں۔ اس لیے اگر کوئی بھائی یا بہن علمی طریقے پر (نہ کہ استدلال سے خالی، اعتماد سے بھرپور جذباتیت اور دلیل کے نام پر نکتہ آفرینی کر کے) غلطی واضح کر دیں گے کہ میں ہی غلط جگہ پر ہوں تو کسی بحث میں الجھے بغیر میں اپنی اصلاح کر لوں گا۔ میرا حال تو یہ ہے کہ بچپن سے آج تک تعصبات کے جتنے بت تھے، ہر ایک کو توڑا اور چھوڑا ہے۔ اس ’’بت شکنی‘‘ کے لیے یہ عاجز ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اس لیے کہ یہی ایمان ہے۔ باقی صرف کہانیاں ہیں یا پھر ایمان کے وہ دعوے ہیں جن کی قلعی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کھول کر رکھ دیں گے۔ ہم سب کو اس انجام سے اپنے رب کی پناہ مانگنی چاہیے۔
تین بنیادی سوالات
آگے بڑھنے سے قبل میں یہ واضح کرنا چاہوں گا اب کچھ بزرگوں کے نام آئیں گے۔ یہ سب اِس دور میں امت کے بڑے اہل علم ہیں۔ ان میں سے ہر ایک سے میں نے بہت استفادہ کیا ہے۔ اس لیے میرے دل میں ان کے لیے بے حد محبت اور احترام ہے۔ تاہم یہ مقام اور مرتبہ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے چکا ہوں اور بلاشبہ یہ صرف سرکار دوعالم ہی کا حق ہے کہ ان کی ہر بات کا دفاع کیا جائے۔ آپ سراپا حق ہیں اور صرف آپ ہی حق ہیں۔ باقی لوگ جتنے بڑے عالم بھی ہوں، بہرحال انسان ہیں۔ ان سے اختلاف ہوسکتا ہے۔ ان کی بات غلط ہوسکتی ہے۔ مگر ان کی کسی بات سے اختلاف کا مطلب ان کے مقام و مرتبہ کو کم کرنا نہیں بلکہ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ بہرحال رسول اور نبی نہیں ہیں جن سے اختلاف نہیں ہوسکتا۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی ایک چیز سے اختلاف کے باوجود ان کی دس چیزوں سے مجھے اتفاق بھی ہے۔ میں ان کی عظمت کو ان کی خدمات کے حوالے سے یاد رکھتا ہوں، ان کے تسامحات کے حوالے سے نہیں۔
جن لوگوں نے میری کتاب تیسری روشنی پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ میں ایک فکری دریافت کے سفر سے گزرا ہوں۔ یہ فکری دریافت دیگر مذاہب اور افکار کے مقابلے میں اسلام کی سچائی کی دریافت بھی تھی اور خود مسلمانوں میں پائے جانے والے باہمی اختلافات میں قرآن مجید سے مطابقت رکھنے والی درست شاہراہ کی دریافت کا عمل بھی تھا۔
اس سفر میں تین بنیادی سوالات تھے جن کے جواب تلاش کرنا میرا مقصد تھا۔ ایک یہ کہ عقائد کے لحاظ سے جو اختلافات مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں ان میں درست نقطہ نظر کیا ہے۔ دوسرے یہ کہ فقہی مسالک کی شکل میں جو مختلف گروہ پائے جاتے ہیں، ان میں کس کی رائے درست ہے۔ جبکہ تیسرا سوال یہ تھا کہ دین کے مقصد، حقیقت اور تعبیر کے لحاظ سے جو مختلف نظریات پائے جاتے ہیں، ان میں سے کون سا نقطہ نظر اسلام اور قرآن مجید کی درست ترجمانی کرتا ہے۔
دین کا بنیادی مقصد
صاحبان نظر یہ سمجھ سکتے ہیں کہ بیانیے کی موجودہ بحث اصلاً اسی تیسرے سوال سے متعلق ہے۔ اس بحث کے اگرچہ کئی پہلو ہیں لیکن اس کا مرکزی نقطہ اگر متعین کیا جائے تو وہ بنیادی طور پر ایک ہی ہے۔ دین اسلام ایک فرد کے سامنے کون سا نصب العین رکھتا ہے۔ دین کا وہ کون سا مقصد ہے جس کے حصول کے لیے دین کے باقی سارے احکام دیے گئے ہیں اور درحقیقت جس کے حصول یا حصول کی کوشش پر اخروی نجات موقوف ہے۔ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس کے جواب سے پھر وہ سارے نکات پیدا ہوجاتے ہیں جو اِس وقت زیر بحث ہیں۔
اس بحث کا آغاز پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں اس امت میں ایک جلیل القدرامام مولانا مودودی ؒ کی اُس تعبیر دین سے ہوا تھا جسے دین کی سیاسی تعبیر کہا جاسکتا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک بندہ مومن کی زندگی کا اصل مقصد حکومت الہیہ کے قیام کی جدوجہد کرنا ہے۔ عملی طور پر اس کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کا اقتدار فاسقین کے ہاتھ سے چھین کر صالحین کے ہاتھ میں دے دیا جائے۔ یہ صالحین پھر سماج پر اللہ کا دین نافذ کریں گے اور ساتھ میں پوری دنیا سے ایک ’’مصلحانہ جہاد‘‘ کر کے ہر جگہ اسلام کا غلبہ قائم کریں گے۔ یہی وہ جدوجہد ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے اور دین کا ہر حکم اسی بنیادی فریضے سے متعلق ہے۔ اس نقطہ نظر کی علمی اساسات حضرت مولانا ؒ کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘ اور ان کی بعض دیگر تصانیف میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ جبکہ ادبی اسلوب میں غالباً نعیم صدیقی صاحب نے بڑی خوبصورتی سے اس کو یوں بیان کیا تھا۔
میری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
مولانا مودودی کی خدمات
مولانا مودودی ؒ بہت بڑے عالم اور محقق تھے۔ انھوں نے اپنے نقطہ نظر کو قرآن مجید کے تفصیلی دلائل کی بنیاد پر مرتب کیا تھا۔ وہ اعلیٰ درجہ کے ادیب اور انشاء پرداز تھے۔ چنانچہ اپنی بات کے ابلاغ کی غیر معمولی صلاحیت ان میں تھی۔ اپنے نقطہ نظر کو معقول طریقے پر ثابت کرنے کی ان میں اتنی غیر معمولی قابلیت تھی کہ مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی صاحب ندوی ؒ نے ان کو بیسوی صدی کے نصف اول میں اسلام کا سب سے بڑا متکلم قرار دیا تھا۔ چنانچہ اپنے نقطہ نظر کو بھی انھوں نے اسی بلاغت، جامعیت اور منطقی استدلال کے ساتھ پیش کیا تھا۔ پھر جس زمانے میں انھوں نے یہ نقطہ نظر پیش کیا، پورا عالم اسلام مغربی طاقتوں کی سیاسی غلامی کا شکار تھا۔ جو قوم ہزار برس تک دنیا کے اقتدار کی مالک رہی ہو، دور غلامی میں اس کی نفسیات سے یہ بات اتنی قریب تھی کہ گویا:
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
اس پر مزید یہ کہ اس زمانے میں ہرجگہ کمیونزم کا طوطا بول رہا تھا۔ یہ نظریہ اقتدار اعلیٰ پر قابض ہوکر سماج کو بدل دینے کا وہ طریقہ کار دیتا تھا جسے اُس زمانے کے انقلابی فکر میں بہت مقبولیت حاصل ہوگئی۔ کمیونزم کے پیش کرنے والے مفکرین نے یہ کمال کیا تھا کہ انھوں نے انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ایسا نقطہ نظر پیش کیا جو ایک سادہ بنیادی خیال یعنی سماجی ناہمواری کے خاتمے اور معاشی انصاف کے گرد گھومتا تھا۔ مگر اس کے پیچھے فلسفے، تاریخ، سیاست، معاشیات، سماجیات غرض ہر پہلو سے استدلال فراہم کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے نفاذ کے لیے ایک اقلیتی گروپ کو واضح پروگرام اور لائحہ عمل بھی دیا گیا کہ کس طرح حکومت پر قبضہ کر کے اپنا نقطہ نظر پورے سماج پر مسلط کرنا ہے۔ پھر اس انقلاب کو دنیا بھر میں پھیلانے کے لیے ایک پورا پروگرام اور اخلاقی توجیہ بھی دی گئی تھی۔ ان سب سے بڑھ کر حقیقتاً یہ انقلاب دنیا کے ایک بڑے ملک میں آبھی گیا اور اس کی توسیع کا عمل شروع ہوگیا۔
اس چیز نے دنیا بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ ظاہر ہے کہ اُس دور کے مسلمان بھی اس سے بڑی شدت سے متاثر ہوئے۔ مگر کمیونزم کے لادینی پس منظر کی بنا پر ایک روایت پسند مسلمان ذہن کبھی کمیونزم کو قبول نہیں کرسکتا تھا۔ چنانچہ جو اسلامی نظریہ اس مقبول کمیونسٹ طریقہ کار کا ایک اسلامی متبادل دے سکے، اس میں اُس دور کے لحاظ سے بڑی کشش تھی۔ چنانچہ حکومت الہیہ کا نظریہ جس میں صالحین کی ایک جماعت جدوجہد کر کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور پہلے پورے سماج کو بدل دینے اور پھر دنیا بھر پر اسلام کو غالب کر دینے کی علمبردار تھی، کمیونزم کا ایک بہت اچھا متبادل بن کر سامنے آئی۔
اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ اس زمانے میں جب کمیونسٹ انقلاب ہندوستان کے دروازے پر دستک دے رہا تھا اور کمیونسٹ پارٹی اور ترقی پسند تحریک کی شکل میں تیزی سے ہندوستان کے مسلمانوں میں اپنی جگہ بنا رہا تھا، ایسے میں مولانا مودودی کا کام ایک بہت بڑی خدمت تھا۔ مولانا مودودی نے ایک طرف اپنے مضامین میں (جن کا مجموعہ بعد میں ’’تنقیحات‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا) مغربی فکر کے بڑھتے ہوئے اثرات پر زبردست چوٹ لگائی تو دوسری طرف کمیونزم کے مقابلے کے لیے اہل اسلام کو گویا اُس دور کا ایک بیانیہ دیا۔ آدھی دنیا میں پھیل جانے والا کمیونزم مذہب کے انکار کی بنیاد پر زندگی کا ایک نظریہ اور نظام دے رہا تھا جو بہت متاثر کن تھا۔ اس کے جواب میں اسلام کو اسی انداز سے پیش کر کے مولانا مودودی نے بہرحال بہت سارے لوگوں کو کمیونزم کی آغوش میں جانے سے بچایا اور اس وقت اسلام کا دفاع کیا جب فکری میدان میں اس کا دفاع کرنے والا کوئی نہ تھا۔
مولانا کے کام کی مزید عظمت اس وقت واضح ہوتی ہے جب اس کا تقابل جناب غلام احمد صاحب پرویز کے کام سے کیا جاتا ہے۔ پرویز صاحب نے اسی زمانے میں معاشی نظام یعنی نظام ربوبیت کو بنیاد بنا کر گویا دین کی ایک معاشی تعبیر دی تھی۔ یہ بھی کمیونزم کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے ایک جوابی بیانیہ تھا۔ مگر اس عمل میں خود قرآن کریم کے ساتھ جو کچھ انھوں نے کیا اس پر سب سے اچھا تبصرہ خود مولانا مودودی ہی نے کیا ہے کہ مختلف عربی لغات ہاتھ میں اٹھا کر وہ جو کچھ قرآن کریم کے ساتھ کرتے ہیں، کوئی شخص یہی کچھ اردو لغات اٹھا کر ان کی اپنی کتابوں کے ساتھ کرنا شروع کر دے تو وہ چیخ اٹھیں گے۔ اس کے برعکس مولانا کے کام کی یہ خصوصیت تھی کہ ان کا کام اتنی محکم بنیادوں پر کھڑا تھا کہ اس پر کسی قسم کی گرفت کرنا بہت مشکل تھا۔
اس نقطہ نظر پر اہم تنقیدیں
یہی وہ وجوہات تھیں کہ جن کی بنا پر اُس دور کے بڑے بڑے اذہان کو اُس فکر نے متاثر کیا۔ اور جو متاثر نہ ہوئے، وہ ان کی تردید میں بھی کچھ نہ کہہ سکے۔ چنانچہ مجدد وقت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒجیسے بڑے عالم اور عارف کا حال یہ تھا کہ فرماتے تھے کہ (مفہوم جو اس وقت مجھے یاد ہے) ان کی بات درست نہیں گرچہ میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اس میں کیا غلط ہے۔ بہرحال آہستہ آہستہ یہ صورتحال ہوئی کہ مولانا مودوی کے فکر کو مسلمانوں کے بیشتر مذہبی فکری حلقوں بلکہ پورے عالم اسلام میں مقبولیت حاصل ہوگئی۔ یہاں تک کہ ان کے بدترین مخالفین اور ان کے خلاف ’’فتنہ مودودیت‘‘ کی مہم چلانے والے طبقات بھی ان کی فکر کے سامنے سجدہ ریز ہوچکے ہیں۔ وہ ان ہی کی بولی بولتے اور ان ہی کی تعبیر دین کے مختلف پہلوؤں کو اپنے انداز میں بیان کرتے ہیں۔
یہاں میں یہ عرض کر دوں کہ میں اپنے ابتدائی فکری سفر میں مولانا مودودی کو اپنا سب سے بڑا محسن خیال کرتا ہوں جن کی تصانیف پڑھ کر میرے اندر اسلام پر اعتماد پیدا ہوا۔ اسی پس منظر میں میں ان کی تعبیرِ دین اور ان کے نقطہ نظر کو بالکل درست خیال کرتا تھا۔ یہاں تک کہ میرے مطالعے میں حضرت مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ آئی۔ انھوں نے اپنی اس کتاب میں بہت واضح طریقے پر یہ ثابت کر دیا کہ یہ نقطہ نظر اسلاف کی پوری علمی روایت کے خلاف ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا وحید الدین خان صاحب کی یہ کتاب مسلمانوں کے تنقیدی ادب میں ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا مودوی کا کام جتنا بڑا اور جتنا مدلل تھا، یہ تنقید بھی اتنی اعلیٰ پائے کی ہے۔ سن 63ء میں یہ کتاب شائع ہوئی اور پھر سن 79ء میں یہی کام مفکر اسلام حضرت مولانا ابو لحسن علی صاحب ندوی ؒ نے ’’عصر حاضر مین دین کی تفہیم و تشریح‘‘ لکھ کر کر دیا۔
غرض ان دونوں بزرگوں نے خالص علمی تنقید کر کے یہ بتا دیا ہے کہ جن آیات اور اصطلاحات کی بنیاد پر یہ پورا نظریہ قائم کیا گیا ہے، وہ آیات کسی طور یہ بات بیان نہیں کرتیں۔ یہ سر تا سر ایک غلط فہمی ہے جو مولانا مودودی ؒکو لگ گئی تھی۔ تاہم یہ تنقیدیں صرف علمی حلقوں تک محددود رہیں۔ بعد میں ان بزرگوں کی تنقید بس اِدھر اُدھر ہوکر رہ گئی اور سردست عالم اسلام پر مولانا مودودی کی فکر ہی کا غلبہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فکر کی اصل طاقت یہ نہیں کہ اس کی علمی بنیادیں ناقابل تردید تھیں۔ بات دراصل یہ تھی اور ہے کہ یہ نقطہ نظر مسلمانوں کی نفسیات کے لیے بہت متاثر کن ہے۔ دوسروں کو چھوڑیں خود آج کے دن تک ہماری یہ شدید خواہش ہے کہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا غلبہ ہو اور اسلام غالب ہوجائے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک یہ تنقیدیں سامنے آئیں، مولانا کی تحریک عملاً ایک بہت بڑا حلقہ اثر قائم کر چکی تھی۔ علمی دنیا کے ساتھ سماج، سیاست اور صحافت میں اس کے بڑے اثرات ہوچکے تھے۔ پھر مولانا وحید الدین خاں صاحب اس زمانے میں بہت کم عمر (انھوں نے یہ کتاب 35 برس کی عمر میں لکھی تھی) نسبتاً غیر معروف شخص تھے۔ ان کا اپنا کوئی حلقہ اثر تھا نہ علمی قد و قامت۔ اس لیے ان کی تنقید معاصر علمی حلقوں میں بھی وہ جگہ نہیں بنا سکی جس کی وہ مستحق تھی۔
چنانچہ مولانا کے افکار پھیلتے گئے اور ان کی فکر نے عالم عجم کے ساتھ عالم عرب کو بھی فتح کر لیا۔ حسن البنا ؒ، سید قطب ؒ اور اخوان اپنے جذبات اور قربانیوں میں جس جگہ بھی کھڑے ہوں، فکراور استدلال میں بہرحال وہ مولانا مودودی ؒ ہی کے ممنون احسان ہیں۔ سردست اس وقت امت مسلمہ پر اس پہلو سے اگر کسی شخص کی فکری بادشاہی قائم ہے تو وہ ہمارے ممدوح حضرت مولانا مودودی ؒ ہی کے نظریے کی حکومت ہے۔ اور جیسا کہ عرض کیا ان کے بدترین مخالفین بھی آج ان ہی کی بولی بولتے ہیں۔ گرچہ نام مولانا کا نہیں لیتے نہ ان کو کوئی کریڈٹ دیتے ہیں۔
دین کی سیاسی تعبیر کے لیے لفظ خلافت کا نعرہ
مولانا مودودی کے نظریات نے گرچہ مسلمانوں کے مذہبی فکری طبقات کو فتح کرلیا ہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ عوام الناس میں ان کی فکر کو کوئی بہت زیادہ مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ ان کی فکر عوامی تحریک میں تبدیل نہ ہوسکی۔ دوسری طرف مولانا نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کمیونسٹوں کے انقلابی طریقہ کار کو چھوڑ کر جمہوری طریقے کو نہ صرف اختیار کرلیا بلکہ سورہ شوریٰ میں آیت ’’امرھم شوری بینھم‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے قرآن مجید سے اس کے دلائل بھی فراہم کر دیے۔ اس تبدیلی سے مولانا کے فکر کی اخلاقی حیثیت بہت بلند ہوگئی، گرچہ فوری طور پر ان کی جماعت کو کامیابی نہ مل سکی۔ مگر اس کی وجہ اس طریقے کی غلطی نہیں بلکہ جماعت کا یہ مسئلہ ہے کہ وہ پاکستان اور پاکستانیوں کے مسائل کی سیاست کرنے کے بجائے زیادہ زور اپنے آفاقی ایجنڈے پر دیتی ہے۔ میری پختہ رائے ہے کہ پاکستان کی جماعت اسلامی بھی اگر اپنے آفاقی ایجنڈے کو ایک کونے میں رکھ کر صرف پاکستان اور پاکستانیوں کی سیاست شروع کر دے تو آج بھی پاکستان کا معاشرہ کسی صالح اور کرپشن سے بلند قیادت کا منتظر ہے۔ جو کچھ ترکی میں ہو رہا ہے پاکستان میں بھی ہوسکتا ہے۔ کاش جماعت کے دوست یہ حقیقت سمجھ سکیں۔ بہرحال دنیا بھر میں اہم اسلامی تحریکوں نے جیسے ترکی اور مصر میں مولانا مودودی کی پیروی میں جمہوری طریقے سے جدوجہد کی اور آفاقیت سے کہیں زیادہ زور مقامی مسائل پر دیا۔ یوں وہ آخر کار اقتدار تک پہنچ گئیں۔ خیر یہ الگ موضوع ہے جس پر کبھی بعد میں تفصیل سے لکھوں گا۔
تاہم بہت سے لوگ تھے جنھوں نے طریقہ کار کی اس تبدیلی کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ وہ اور شدت کی طرف چلے گئے۔ خاص طور پر عرب آمریتوں نے اخوان کے ساتھ جو سختی کی اس کے ردعمل میں یہ مزید انتہا پسند ہوتے چلے گئے۔ ان میں سے ایک جماعت حزب التحریر تھی۔ اس نے اپنے سیاسی نصب العین کے لیے ’’خلافت‘‘ کے نعرہ کو اختیار کرلیا۔ اس نعرے کی علمی اور دینی قدر و قیمت تو ابھی زیر بحث آجاتی ہے، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’خلافت‘‘ کی اصطلاح کا نفسیاتی اثر ایک عام مسلمان کے لیے بہت زیادہ ہے۔ خلافت کا لفظ سنتے ہی ایک طرف سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی درویشانہ حکومت ذہن میں آتی ہے جس میں شیر اور بکری ایک گھاٹ میں پانی پیتے تھے تو دوسری طرف مسلمانوں کا ہزار سالہ اقتدار اور غلبہ یاد آجاتا ہے۔ عرب میں اس فکر کو حزب التحریر جیسی جماعتوں نے اور ہمارے ہاں اس فکر کو ڈاکٹر اسرار مرحوم نے بہت عام کیا۔ اس خاکسار کو یہ شرف حاصل ہے کہ جس زمانے میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے تحریک خلافت کا باقاعدہ آغاز کیا، یہ عاجز دن رات ان تمام اجتماعات اور تقریروں میں شریک ہوکر براہ راست وہ استدلال سمجھتا رہا ہے جو ڈاکٹر صاحب مرحوم پیش فرما رہے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی عوامی اپیل حکومت الہیہ کے نعرے سے کہیں زیادہ ہے اور الحمد اللہ ثم الحمدللہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔
خلافت کے حوالے سے قرآن مجید کا نقطہ نظر
المیہ البتہ یہ ہے کہ اس پورے معاملے میں کوئی اللہ میاں سے پلٹ کر پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ وہ خود کیا فرماتے ہیں۔ شاید حضرت اقبال کے اثر سے ہماری خودی اتنی بلند ہوچکی ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ خدا بندے سے خود پوچھتا رہے کہ بتا تیری رضا کیا ہے۔ بندے کا اب یہ کام نہیں رہا کہ وہ خدا کی رضا بھی دریافت کرنے کی کوشش کرے۔ اس عاجز نے ابھی تک اس مضمون میں جو کچھ لکھا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ اس حوالے سے کم از کم اللہ تعالیٰ کی مرضی و منشا سے ان ہی کے الفاظ میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ کیونکہ بیانیے کی اس بحث میں خلافت کے حوالے سے جو کچھ پڑھنے کا موقع ملا ہے، اس کے بعد میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کا نقطہ نظر ان کے اپنے الفاظ میں لوگوں کہ سامنے رکھ دوں۔ تاکہ قیامت کے دن کوئی عالم و عامی رب کے حضور یہ نہ کہہ سکے کہ اللہ میاں! سب اپنی باتیں کرتے رہے، آپ کی بات تو کسی نے بتائی ہی نہیں۔
ذیل میں قرآن مجید میں خلافت کے موضوع کو زیر بحث لانے والی تمام آیات کا ترجمہ نقل کیا جا رہا ہے۔ اس میں لفظ خلیفہ کو بعینہٖ بغیر کسی ترجمے کے نقل کیا ہے۔ اس کا جو دل چاہے آپ ترجمہ کر لیں۔ نتائج فکر کسی طور مختلف نہیں ہوسکتے۔ وہ نتائج کیا ہیں، ملاحظہ فرمائیے۔
پہلا یہ کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے کسی مقام پر بھی مجھ سے، آپ سے یا کسی سے بھی یہ نہیں کہہ رہے کہ تم خلافت قائم کرنے کی جدوجہد کرو۔ یا یہ کوئی دینی کام ہے۔ یا یہ کہ یہ سرے سے کوئی کرنے کا کام ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کوئی چیز دین کا مطالبہ یا دین کا مقصد ہے تو اس کا حکم دیا جانا تو ضروری ہے نا۔ اس کے بغیر اس کام کے لیے لوگوں کو کس بنیاد اٹھایا جاسکتا ہے؟
دوسرا یہ کہ اس کے بالکل برعکس ہر مقام پر اللہ تعالیٰ افراد اور اقوام کو خلیفہ بنانے کے عمل کو سر تا سر اپنی طرف منسوب کر رہے ہیں۔ یعنی قرآن مجید ہر جگہ اسے ایک تکوینی امر کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کے دیگر معاملات کر رہے ہیں؛ مثلاً لوگوں کو زندہ کرتے ہیں، مارتے ہیں، رزق دیتے ہیں، اولاد دیتے ہیں، بیکس کی فریاد رسی کرتے ہیں، اسی طرح وہ خلافت کے متعلق بھی واضح کر رہے ہیں کہ لوگوں کو خلافت وہی دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جس معاملے کو اللہ تعالیٰ ایک تکوینی (اللہ کی قدرت سے متعلق) معاملہ قرار دے رہے ہیں، اس کو تشریعی (شریعت کے حکم سے متعلق) معاملہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ جو اللہ کے کرنے کا کام ہے، وہ ایک دینی فریضہ کیسے بن سکتا ہے؟
تیسرے یہ کہ کئی مقامات پر یہ صراحت کی گئی ہے کفار کو بھی زمین پر خلیفہ بنایا گیا ہے۔ کفار قریش، قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود سب کے متعلق یہ تصریح ہے کہ ان کو زمین پر خلیفہ بنایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ان کفار کو بھی خلیفہ بنایا گیا تو اس معاملے کو مسلمانوں کے ساتھ کیسے خاص کیا جاسکتا ہے؟
چوتھی بات یہ ہے کہ جس جگہ پر مسلمانوں کو خلیفہ بنانے کا ذکر ہے، وہاں اسے مسلمانوں کے کسی مقصد کے طور پر بیان نہیں کیا گیا بلکہ یہ اللہ کے وعدے کا بیان ہے کہ جو لوگ ایمان و عمل صالح کی شرط پر پورا اتریں گے، یہ ان سے اللہ کا وعدہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ امر موعود کو امر مقصود کیسے بنایا جاسکتا ہے۔ یعنی جو اللہ کا وعدہ ہے وہ اللہ پورا کریں گے۔ ہمیں تو جو کام بتایا گیا ہے یعنی ایمان و عمل صالح ہمیں تو لوگوں کو اس کے لیے اٹھانا چاہیے۔ نہ کہ خلافت کے کسی نظریے کو مقصود دین کے طور پر پیش کرنے لگیں۔
پانچویں اور آخری بات یہ ہے کہ یہ کسی فقہی امر کو متعین کرنے کا معاملہ نہیں جس میں فقہا کے اقوال نقل کر کے قوم کو اس کے پیچھے دوڑا دیا جائے۔ یہ دین کے نصب العین کا معاملہ ہے۔ یہ ایک دینی فریضے کا معاملہ ہے۔ اس پر قرآن مجید کی واضح ترین صراحت چاہیے۔ ہم یہ بتا چکے ہیں کہ نہ صرف قرآن مجید اسے کسی دینی فریضے کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ ہر پہلو سے اس کے متضاد بات کرتا ہے۔ ایسے میں ہماری ناقص رائے میں قرآن مجید اس نقطہ نظر کے بالکل خلاف کھڑا ہوا ہے۔ اب ذرا آیات الہی کا مطالعہ فرما لیجیے۔
آیات قرآنی
(کیا تمھارے یہ شرکاء عبادت کے مستحق ہیں) یا وہ جو محتاج کی داد رسی کرتا ہے، جبکہ وہ اس کو پکارتا ہے اور اس کے دکھ درد دور کرتا ہے اور تم کو زمین کا خلیفہ بناتا ہے۔ (النمل62:27)
اور ہم نے تم سے پہلے قوموں کو ہلاک کیا جب کہ وہ ظلم کی مرتکب ہوئیں۔ اور ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے اور وہ ایمان لانے والے نہ بنے۔ ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں مجرم قوم کو۔ پھر ہم نے ان کے بعد تم کو زمین کا خلیفہ بنایا تا کہ دیکھیں تم کیسا عمل کرتے ہو۔ (یونس 10: 14-13)
وہی ہے جس نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا تو جو کفر کرے گا اس کے کفر کا وبال اسی پر آئے گا اور کافروں کے لیے ان کا کفر، ان کے رب کے نزدیک، اس کے غضب کی زیادتی ہی کا موجب ہوگا۔ اور کافروں کے لیے ان کا کفر ان کے خسارے ہی میں اضافہ کرے گا۔ (فاطر 35: 39)
(حضرت ہود نے اپنی قوم عاد سے کہا) اور یاد کرو جب کہ اس نے تمہیں قوم نوح کے بعد خلیفہ بنایا اور جسمانی اعتبار سے تمہیں وسعت و کشادگی عطا فرمائی تو اللہ کی شانوں کو یاد رکھو تا کہ تم فلاح پاؤ۔ (الاعراف 7: 69)
(حضرت صالح نے اپنی قوم ثمود سے کہا) اور یاد کرو جب کہ خدا نے قوم عاد کے بعد تم کو خلیفہ بنایا اور ملک میں تم کو تمکن بخشا، تم اس کے میدانوں میں محل تعمیر کرتے اور پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو تو اللہ کی شانوں کو یاد کرو اور ملک میں اودھم مچاتے نہ پھرو۔ (الاعراف 7: 76)
اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں خلیفہ بنایا اور ایک کے درجے دوسرے پر بلند کیے تا کہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تم کو آزمائے، بے شک تیرا رب جلد پاداش عمل دینے والا بھی ہے اور وہ بخشنے والا اور مہربان بھی ہے (الانعام 6: 165)
اور تیرا رب بے نیاز، رحمت والا ہے، اگر وہ چاہے تم کو فنا کر دے اور تمہارے بعد تمہاری جگہ جس کو چاہے خلیفہ بنا دے جس طرح اس نے تم کو پیدا کیا دوسروں کی نسل سے۔ (الانعام 6: 133)
پس اگر تم اعراض کر رہے ہو تو میں نے تمہیں وہ پیغام پہنچا دیا جو دے کر مجھے تمہاری طرف بھیجا گیا ہے۔ اور میرا رب تمہاری جگہ اب تمہارے سوا کسی اور قوم کو خلیفہ بنائے گا اور تم اس کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکو گے۔ میرا رب ہر چیز پر نگہبان ہے۔ (ہود 11: 57)
اور یاد کرو جب کہ تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں اس کو خلیفہ مقرر کرے گا جو اس میں فساد مچائے اور خونریزی کرے۔ (البقرہ 2: 30)
اے داؤد ہم نے تم کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے۔ پس لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کرو۔ (ص 26:38)
تو انہوں نے اس (نوح) کو جھٹلا دیا تو ہم نے اس کو اور جو لوگ اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی اور ان کو خلیفہ بنا دیا اور ان لوگوں کو غرق کر دیا جنہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی تو دیکھو کیا انجام ہوا ان لوگوں کا جن کو ہوشیار کیا جا چکا تھا!! (یونس 10: 73-71)
وہ بولے ہم تو تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اور تمہارے آنے کے بعد بھی۔ (موسیٰ) نے کہا توقع ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو پامال کرے گا اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے گا کہ دیکھے تم کیا روش اختیار کرتے ہو!(اعراف 7: 129)
تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے عملِ صالح کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا جو ان سے پہلے گزرے اور ان کے اس دین کو متمکن کرے گا جس کو ان کے لیے پسندیدہ ٹھہرایا اور ان کی اس خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ میری ہی عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کریں گے تو درحقیقت وہی لوگ نافرمان ہیں۔ (نور 24: 55)
یہ قرآن مجید میں خلافت کے حوالے سے آنے والے کل بیانات ہیں جو بعینہٖ آپ کے سامنے ہیں۔ ان آیات کو پڑھیے اور بار بار پڑھیے۔ آپ ایک لمحے میں یہ جان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مقام پر خلیفہ بنانے کی نسبت اپنی طرف کی ہے۔ اسے کسی دینی فریضے کے طور پر نہیں بلکہ بطور آزمائش یا بطور انعام بیان کیا گیا ہے۔ یہ خلافت اہل ایمان کو دینے کا بیان ہے تو کفار کو بھی دیے جانے کا ذکر ہے۔
ان آیات سے یہ بات آخری درجہ میں واضح ہے کہ اس سے خلافت قائم کرنے کی کسی جدوجہد پر اٹھانے کا کوئی اشارہ نہیں۔ ایسا کوئی دینی حکم نہیں کہ خلافت قائم کرنے کی جدوجہد کرو۔ بلکہ اس کے برعکس اسے ایک تکوینی معاملے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ اس میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو ایمان صالح کی بنیاد پر خلافت کی خوش خبری دیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے حوالے سے اگر کوئی نتیجہ نکلتا ہے تو وہ یہ نکلتا ہے کہ ایمان و عمل صالح کی وہ تحریک برپا کریں جس کے لیے اس خاکسار نے اپنی زندگی وقف کی ہے۔ یہ کیفیت اگر پیدا ہوگئی تو اللہ تعالیٰ خلافت عطا کر دیں گے۔ کیونکہ سورہ نور کی آیت نص قطعی ہے کہ یہ امر مقصود نہیں امر موعود ہے۔ یعنی یہ دین کا کوئی حکم نہیں بلکہ دین پر پوری طرح عمل کرنے کا انعام ہے جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔
قرآن نے یہی بات خلیفہ کا لفظ استعمال کیے بغیر بھی بیان کی ہے۔ سورہ اٰل عمران میں جس مقام پر اس فیصلہ الٰہی کا اعلان ہو رہا ہے کہ یہود کو منصب امامت سے معزول کیا جا رہا ہے اور بنی اسماعیل کو اس منصب پر فائز کیا جا رہا ہے وہاں یہ فیصلہ ایک دعا کی شکل میں امت کو سکھایا گیا ہے۔ اس دعا میں خلافت کی جگہ بادشاہی کے الفاظ استعمال کر کے ٹھیک یہی بات بتا دی گئی ہے۔
دعا کرو، اے اللہ، بادشاہی کے مالک، تو ہی جس کو چاہے بادشاہی دے، جس سے چاہے بادشاہی چھینے اور تو ہی جس کو چاہے عزت بخشے اور جس کو چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے ۔بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ تو، رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے زندہ کو مردہ سے اور ظاہر کرتا ہے مردہ کو زندہ سے اور تو جس پر چاہتا ہے اپنا بے حساب فضل کرتا ہے۔(آل عمران 3: 27-26)
دیکھ لیجیے کہ یہاں بھی بادشاہی دینے اور لینے کو ایک تکوینی معاملے یعنی فیصلہ الٰہی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اہل ایمان کو اس مقصد کے لیے کسی جدوجہد کا حکم نہیں دیا گیا۔ بلکہ اسے دیگر تکوینی معاملات کے ساتھ بطور قدرت الٰہی کے بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے کسی قسم کی سیاسی جدوجہد کر کے حکومت قائم کرنا کس طرح دین کا کوئی مطالبہ بن سکتا ہے۔ ایک دوسری جگہ خلافت کا ایک دوسرا ہم معنی لفظ یعنی تمکن فی الارض یا زمین پر اقتدار بخشنا کے الفاظ سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا کام ہے کہ وہ اقتدار دے۔
یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو سر زمین میں اقتدار بخشیں گے تو وہ نماز کا اہتمام کریں گے، زکوٰۃ ادا کریں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے۔ اور انجام کار کا معاملہ اللہ ہی کے اختیار میں ہے ۔(الحج 22: 41)
یہ ہے اس معاملے قرآن مجید کا نقطہ نظر جو ہم نے آپ کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ہمارا مقصود کسی کو فکری شکست دینا نہیں، اللہ کی مرضی کو کھول کر بیان کرنا ہے۔ تاکہ کل قیامت کے دن لوگ یہ نہ کہہ سکیں کہ پروردگار کسی نے آپ کی بات سمجھائی ہی نہیں۔ ہمیں کسی بحث میں نہیں الجھنا، صرف لوگوں سے یہ گواہی چاہیے کہ ہم نے اپنے رب کی بات بعینہٖ ان کے سامنے رکھ دی ہے۔ اب جس کا دل چاہے وہ مانے اور جس کا دل چاہے نہ مانے۔
دین کا نصب العین: قرآن مجید کے الفاظ میں
اس ضمن میں ایک آخری سوال جس کا مختصر جواب دے کر ہم یہ گفتگو ختم کریں گے وہ یہ ہے کہ پھر دین اپنا نصب العین کیا بیان کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک اس معاملے میں درست بات وہی ہے جو حضرت الاستاذ جناب جاوید احمد صاحب غامدی نے قرآن مجید کی روشنی میں بیان کی ہے۔ یعنی دین ایک فرد کے سامنے یہ مقصد رکھتا ہے کہ وہ اپنے نفس کا تزکیہ کرے۔ قرآن مجید جگہ جگہ اسی تزکیہ پر جنت کی کامیابی کو موقوف قرار دیتا ہے۔ اسی کو چار مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقصد کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کامیاب ہوا وہ جس نے اپنا تزکیہ کیا اور اپنے پروردگار کا نام یاد کیا، پھر نماز پڑ ھی۔ (الاعلیٰ 87: 15-14)
قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اسے ٹھیک بنایا۔ پھر اس کی بدی اور تقویٰ اسے الہام کیا، کامیاب ہوا وہ جس نے اس نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اسے آلودہ کیا (الشمس 91: 10-7)
وہی ذات ہے جس نے اِن امیوں میں ایک رسول اِنھی میں سے اٹھایا ہے جو اُس کی آیتیں اِن پر تلاوت کرتا ہے اور اِن کا تزکیہ کرتا ہے اور (اِس کے لیے) اِنھیں قانون اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے (جمعہ 2:62)
یہی تزکیہ یعنی عقیدے، عمل اور اخلاق کی ہر آلائش سے خود کو پاک کرنے کا وہ عمل ہے جو ایک مومن کی زندگی میں ہمہ وقت جاری رہتا ہے۔ تمام احکام دین اسی مقصد کے حصول کے لیے دیے گئے ہیں۔ یہی وہ تزکیہ ہے جو جنت میں داخلے کی اصل وجہ ہے، (طہ20: 76) اور قرآن مجید کے مطابق اس میں کوئی کمی رہ گئی تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کر دیں گے اور نافرمانوں کو اس سے محروم رکھیں گے۔ (بقرہ2: 174)۔
ہمارے نزدیک دور جدید کی سب سے بڑی غلطی یہی ہے کہ لوگوں نے اپنی ذات کے تزکیے کو چھوڑ کر خارج میں دوسروں پر دین نافذ کرنے اور ان پر زبردستی اسلام کو ٹھونسنے کو اصل دین بنا دیا ہے۔ حالانکہ قرآن مجید بالکل واضح ہے کہ دوسروں کے حوالے سے ذمہ داری صرف پہنچانے اور سمجھانے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس دنیا کے بارے میں یہ اسکیم ہی نہیں کہ لوگوں کو زبردستی نیک بنایا جائے۔ اسے تو اپنی جنت کے لیے ایسے لوگ چاہئیں جو زبردستی اور منافقانہ طور پر نہیں بلکہ دلیل کی بنیاد پر ایمان لا کر اپنے اختیار کو خدا کے سامنے ختم کر دیں۔وہ کسی جبر کے بغیر نیک بن جائیں۔ اگر بالجبر لوگوں سے سچائی منوانی اور اچھے کام کروانے ہوں تو اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ ہوگا اور دنیا میں کوئی نافرمان نہ رہے گا۔ مگر پھر امتحان بھی نہیں رہے گا۔
یہ دنیا دارالا امتحان ہے۔ اس میں خیر و شر کی پوری آزادی ہونی چاہیے۔ چنانچہ اسی خیر و شر کے شعور کو زندہ رکھنے کے لیے ہدایت، شہادت حق، تواصو ابالحق، امر بالعروف و نہی المنکر، انذار و تذکیر کا پورا سلسلہ برپا کیا گیا ہے۔ ڈرانا دھمکانا، جبر اور زبردستی اللہ کی اسکیم نہیں۔ یہی اصل بات ہے جو ہم کو سمجھ لینا چاہیے کہ جبر اللہ کی اسکیم کا حصہ نہیں۔ اسی کی روشنی میں دین کے ہر حکم کو سمجھنا چاہیے۔
اس حوالے سے لوگوں میں کچھ غلط فہمیاں ہیں۔ مگریہ مضمون بہت طویل ہوچکا ہے۔ اس لیے ہم مضمون کو یہیں ختم کر کے ان کے حوالے اپنا نقطہ نظر تین مزید مضامین میں الگے صفحات پر بیان کریں گے۔ پہلے میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر گفتگو ہوگی۔ دوسرے میں سرزمین عرب پہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو حاصل ہونے والے غلبے اور مشرکین عرب کے لیے سزائے موت کے قرآنی حکم کی وضاحت ہوگی۔ تیسرے میں خلافت راشدہ میں روم و ایران کے خلاف کیے جانے والے جہاد پر گفتگو کی جائے گی۔ ان مضامین کے لنک اوپر دیئے گئے ہیں۔
جہاں رہیں بندگان خدا کے لیے باعث رحمت بنیے، باعث آزار نہ بنیے۔