عرفان خان کا خط ۔ ابو یحیی
عرفان خان بین الاقوامی شہرت کے حامل ایک انڈین ایکٹر ہیں۔ان کا شمار بالی وڈ کے بہترین اداکاروں میں کیا جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل انھیں کینسر کی ایک شاذ قسم تشخیص ہوئی۔ حال ہی میں انھوں نے ٹائمزآف انڈیا میں شائع ہونے والے ایک خط میں اپنی اس بیماری کا انکشاف کیا۔ ساتھ ہی بڑی خوبصورتی سے ان احساسات کی ترجمانی کی جو زندگی میں عین عروج کے وقت موت کی اچانک آہٹ ملنے پر کسی انسان میں پیدا ہوسکتے ہیں۔
یہ خط برصغیر اور پوری دنیا میں موجود ان کے کروڑوں مداحوں میں پھیل گیا۔ میں نے اس خط کو بار بار پڑھا ہے۔ انگریزی میں بھی اور اردو میں بھی۔ یہ بڑا موثر خط ہے۔ یہ خط بظاہر عرفان خان نے دنیا بھر میں موجود اپنے کروڑوں چاہنے والوں کو لکھا ہے، مگرمیرے نزدیک اس خط کے دو پہلو اور ہیں جو بین السطور موجود ہیں اور جن کا سمجھنا ضروری ہے۔
پہلا یہ کہ یہ خط خدا نے ان کے ہاتھ سے پوری انسانیت کو لکھوایا ہے۔ اس خط کے ذریعے سے ہر انسان کو خدا کا یہ پیغام پہنچ جانا چاہیے کہ انسان اپنا ہر مسئلہ حل کرسکتا ہے، موت کا مسئلہ حل نہیں کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ موت خدا کے حضور پیشی کا نام ہے۔ یہ عارضی دنیا سے نکل کر ابدی دنیا میں چلے جانے کا نام ہے۔ یہ انسانی دنیا سے نکل کر خدائی دنیا میں حاضری کا نام ہے۔ یہ پرچہ ا متحان حل کرکے نتیجہ امتحان سننے کا مرحلہ ہے۔ یہ انسان کے خاتمے کا نہیں امتحان کے خاتمے کا مرحلہ ہے۔
یہ موت ہر انسان کو آنی ہے مگر عام حالات میں لوگ اس سب سے بڑی حقیقت سے پہلو تہی کیے رہتے ہیں۔لیکن اس طرح کی معروف شخصیات کے ساتھ پیش آنے والے ایسے واقعات باقی لوگوں کو اس عظیم حقیقت کی طرف متوجہ کرنے کا عمل ہوتے ہیں۔
انسانیت کے علاوہ اس خط کے دوسرے مخاطب مسلمان ہیں۔ مسلمان ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کے وارث ہیں۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ انبیا کے اصل مشن یعنی آخرت کے انذار اور یاددہانی کو زندہ رکھیں۔ مگر مسلمان اس کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہیں۔ حتیٰ کہ ایک مسلمان عرفان خان کے خط سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ موت کو ابدی زندگی کا آغاز سمجھتا ہے۔
مسلمانوں کی اپنی ذمہ داری سے یہ غفلت ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔ یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ اس کی سزا کے طور پر دنیا بھر کے مسلمانوں پر ذلت، مسکنت اور مغلوبیت مسلط کردی گئی ہے۔ مگر مسلمان اپنے اس جرم کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں۔ وہ انسانیت تک خدا کا پیغام پہنچانے پر تیار نہیں۔ ان کا اصل مسئلہ دنیا کا غلبہ اور اقتدار ہے۔ بالکل فلمی اداکار عرفان خان کی طرح جس کا سب سے بڑا مسئلہ دنیا تھی اور جس دنیا سے رخصتی کے اعلان نے اس کوتوڑ کر رکھ دیا۔
آج کا مسلمان بھی اسی دنیا کے لیے جیتا اور مرتا ہے۔ مسلمانوں کی قیادت اسی دنیا کے غلبے اوراقتدار کو سب سے بڑا مسئلہ بنائے ہوئے ہے۔ جبکہ خدا کی اسکیم میں یہ دنیا ایک امتحان، ایک عارضی قیام گاہ اور ایک متاع حقیر کے سوا کچھ نہیں۔ عرفان خان کا یہ خط دنیا بھر کے ان مسلمانوں کی بھرپور ترجمانی کرتاہے جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر دنیا ہی کو اصل مسئلہ بنائے ہوئے ہیں۔ مگر جب موت سامنے آئے گی، جب ڈاکٹر جواب دے دیں گے، جب ہم اپنے اپنے حصے کے کینسر کی خبر سنیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی زندگی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہ تھی۔
فرد کا معاملہ تو پھر اسی روز طے ہوگا جب اصل زندگی شروع ہوگی۔ مگر مسلمانوں کا اجتماعی معاملہ آج ہی طے ہوچکا ہے۔ ان پر اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کے جرم میں ذلت، مغلوبیت اور رسوائی مسلط کی جاچکی ہے۔ وہ لاکھ کوشش کرلیں، ذلت کی یہ رات ان پر سے ختم نہیں کی جائے گی جب تک کہ وہ دنیا تک آخرت کا پیغام پہنچانا اور آخرت کا انذار کرنا اپنا اصل مقصد نہیں بنالیتے۔