انتخاب ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کے مطابق اس دنیا میں انسان جس امتحان میں ہیں، وہ کسی قسم کا جبر نہیں بلکہ ان کا اپنا انتخاب ہے، (احزاب 72:33)۔ اس دنیا کا امتحان چونکہ اخلاقی نوعیت کا ہے اس لیے اخلاقی معاملات میں انسانوں کے پاس یہ اختیار ہر حال میں موجود رہتا ہے کہ وہ خیر کو چنتا ہے یا شر کو۔ نیکی کو چنتا ہے یا بدی کو۔ دیانت کو چنتا ہے یا بددیانتی کو۔ انسان کا یہی وہ اختیار ہے جس کے نتیجے میں جنت یا جہنم میں سے کوئی ایک منزل انسان کا ابدی مستقر بن جائے گی۔
جنت کی ابدی زندگی، لافانی عیش و عشرت، لازوال حسن و شباب، غیر منقطع نعمتیں، غیر ممنوع لذتیں، بے حساب انعام، بے شمار اکرام، غرض ہر وہ چیز جس کا انسان تصور کرسکتا ہے، اس ابدی ٹھکانے پر انسان کی منتظر ہیں۔ اس کے برعکس انسان کو دوسرا ممکنہ ٹھکانہ جہنم کا ختم نہ ہونے والا عذاب اور برداشت نہ ہونے والی سختیاں ہیں۔
تاہم یہ بات نظریاتی پہلو سے کہی اور لکھی جا سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہنم اپنی ذات میں ایک ناقابل انتخاب جگہ ہے۔ اس انسان کے لیے جو لو کی تپش نہ جھیل سکے، آگ کی لپٹ کیسے کوئی انتخاب بن سکتی ہے۔ جو انسان سوئی کی چبھن برداشت نہ کرسکے، اس کے لیے لمحہ لمحہ میں شکلیں بدل کر جسم اور دماغ کو توڑ دینے والے عذاب سرے سے کوئی چوائس نہیں ہیں۔
جس انسان کو یہ احساس ہوجائے کہ اس کے سامنے دو ہی ممکنہ انجام ہیں اور اس میں سے دوسرا انجام درحقیقت کوئی چوائس ہی نہیں وہ تڑپ اٹھتا ہے۔ انسان کے وجود سے پھوٹنے والی ساری نیکی اسی تڑپ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ انسان کا سارا تقویٰ اسی احساس کا مرہون منت ہوتا ہے۔
مگر جو بد نصیب اس احساس کے بغیر جیتے ہیں وہ گناہ اور اخلاقی پستی کو اپنا انتخاب بناتے ہیں۔ اور نتیجے کے طور پر جہنم کا وہ انجام ان کا مقدر بن جاتا ہے جو کسی صورت کوئی انتخاب نہیں۔