انسانوں کی پہلی زندگی ۔ ابویحییٰ
جو سوال "جب زندگی شروع ہوگی” کے حوالے سے سب سے زیادہ پوچھا گیا وہ انسانوں کی پہلی زندگی سے متعلق تھا۔ اس حوالے سے جو کچھ میں نے لکھا تھا ہر شخص نے یہی کہا کہ یہ ان کے دل کی آواز ہے لیکن کیا اس کی کوئی اساس قرآن مجید میں پائی بھی جاتی ہے۔
اس سوال کے جواب میں یہ عرض ہے کہ میں نے جو کچھ لکھا اس کی اساس بلاشبہ قرآن مجید میں پائی جاتی ہے۔ یہ بات کہ انسانوں کو اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی زندگی دی گئی قرآن مجید میں سورہ اعراف آیت 172 میں بیان ہوئی ہے۔ اس آیت میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ تمام انسانوں کو ایک موقع پر ایک ساتھ پیدا کیا جاچکا ہے۔ اس واقعہ کو عام طور پر عہد الست کہا جاتا ہے۔ یہ بات کہ انسانوں کو دنیا کی اس آزمائش میں زبردستی نہیں دھکیلا گیا بلکہ وہ خود کودے ہیں، یہ بھی قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بیان کی ہے۔ سورہ احزاب آیت 72 صاف بیان کیا گیا ہے کہ یہ وہ بار امانت تھا کہ جب مخلوقات پر پیش کیا گیا تو سب پیچھے ہٹ گئے۔ انسان آگے بڑھا اور اس نے اسے قبول کرلیا۔
یہی دو چیزیں یعنی تمام انسانوں کی ایک ساتھ موجودگی اور انسانوں کا اپنی مرضی سے اس آزمائش کو قبول کرلینا میرے اس استنباط کی بنیاد ہیں جو اس کے بعد میں نے کیا ہے کہ انسانوں نے اس بات کا فیصلہ خود کیا ہے کہ فطرت، امت، دور رسالت میں سے کس سطح کی ہدایت پر رہ کر انہیں امتحان دینا ہے۔ عقل عام کی بات ہے کہ اس دنیا میں انسانوں کے امتحان یکساں نہیں ہیں۔ یہ بھی معلوم ہے کہ یہ امتحان اس ہستی کی طرف سے لیا جارہا ہے جس کا بار بار کہنا ہے کہ وہ اپنے بندوں پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ اس کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سراپا عدل ہستی انہیں ایک ایسے امتحان میں دھکیل دے جس کے ممکنہ نتائج جہنم جیسے بھیانک نکل سکتے ہوں اور انہیں امتحان کے بارے میں کچھ بتایا جائے نہ ان سے کچھ پوچھا جائے۔ ان سب حقائق کی بنا پر میں نے وہ نقطہ نظر پیش کیا ہے جو ناول میں موجود ہے۔