امتحان کی مختلف قسمیں ۔ ابویحییٰ
[ابو یحییٰ صاحب کی کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کے حوالے سے ایک سوال پر یہ مکتوب تحریر کیا گیا۔ مکتوب الیہ اور بعض دیگر اہل علم کے نام باوجوہ حذف کردیے گئے ہیں، ادارہ۔]
برادر عزیز
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔ ہماری گفتگو تشنہ رہی۔ لیکن اب یہ ممکن ہے کہ آپ کے اشکالات پر میں اپنا نقطہ نظر تفصیل سے بیان کر دوں۔ یہ ویسے بھی مولانا۔۔۔۔۔۔ کا مجھ پر ایک ادھار ہے کہ اصل میں یہ اعتراض انہی کا تھا۔ چنانچہ واپس آکر میں نے ان کی اس تحریر کو تلاش کیا جو ماہ اپریل میں آپ کے توسط سے مجھے ملی تھی، مگر ’’قران کا مطلوب انسان‘‘ اور’’تیسری روشنی‘‘ کی اشاعت اور کچھ ذاتی وجوہات کی بنا پر میں ابھی تک اس تحریر کو نہیں دیکھ سکا تھا۔ آج اسے دیکھا تو وہ اعتراض واضح طور پر سامنے آگیا جو ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ میں میرے بیان کردہ اس نقطہ نظر پر اٹھایا گیا ہے کہ اس دنیا میں اگر انسانیت کے بعض گروہوں کا امتحان جدا جدا ہے تو یہ دراصل ان کا اپنا انتخاب ہے، (صفحہ81-80)۔
میں آپ کے یا مولانا۔۔۔۔۔۔ صاحب کے اعتراضات کا بعد میں جواب دوں گا پہلے اپنا نقطہ نظر کچھ وضاحت سے پیش کرنا چاہوں گا کیونکہ میرا تاثر ہے کہ میری بات اور دلائل کو پوری طرح سمجھاہی نہیں گیا۔ جب بات سمجھی ہی نہیں گئی تو کسی بھی قسم کی تردید اکثر اپنے اور دوسرے کے وقت کا زیاں بن جاتی ہے۔ اس گنہگار پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا کرم ہے کہ اس نے اپنی علمی اور تحقیقی زندگی کی ابتدا ہی میں یہ اصول سمجھ لیا تھا کہ جب کسی پر تنقید کرنا مقصود ہو تو پہلے مرحلے پر اس کا نقطہ نظر پوری ہمدردی کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے۔ اس طرح کہ جب ہم اس کا نقطہ نظر بیان کریں تو وہ بھی کہہ اٹھے کہ بالکل درست بات بیان کی جارہی ہے۔ اس کے لیے سوال کرکے بات کو سمجھا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے پر ہی اگر سوال کے بجائے اعتراض شروع ہوجائے تو پھر ختم نہ ہونے والی بحث شروع ہوجاتی ہے جس کا کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس دنیا میں انسانی گروہوں کا امتحان یکساں نہیں۔ یہی وہ بات ہے جس سے میں نے اپنی کتاب میں یہ گفتگو شروع کی ہے۔ مگر اگلی بات جو ایک مسلمہ اور معلوم حقیقت ہے وہ یہ ہے کہ امتحان میں اختلاف کی نوعیت یہ نہیں کہ جن نمائندہ گروہوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان سب کو بالکل الگ الگ پرچہ امتحان دے دیا ہے۔ بلکہ پہلے گروہ کو جو امتحان دیا گیا ہے، اگلے کو اسی کو مشکل تر کرکے دے دیا گیا ہے۔ یعنی عام انسان جو نبیوں کی امت میں پیدا نہیں ہوئے ان کا امتحان فطرت میں موجودہ عقیدہ توحید اور خیر و شر کے تصورات کے مطابق زندگی گزارنا ہے تو ایسا نہیں کہ اگلے گروہ کو اس ذمہ داری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ بلکہ اگلا گروہ یعنی نبیوں کی امت کو ان کے ساتھ اگلا امتحان شریعت کی پاسداری کا بھی درپیش ہے۔ وہ فطرت کے تقاضوں کے مطابق اخلاقی رویہ کو بھی اپنائیں گے اور شریعت کے ضوابط و قواعد کی پابندی بھی ان کے لیے ضروری ہے۔ اس سے اگلا گروہ یعنی انبیاء کے زمانہ پانے والوں کی اصل ذمہ داری اگر یہ ہے کہ وہ نبیوں کی تصدیق، تائید اور نصرت ہر حال میں کریں تو ساتھ میں اخلاقیات اور شریعت کے مطالبات سے بھی انہیں کوئی استثنا حاصل نہیں ہے۔
اب اپنی بات سمجھانے کے لیے میں تینوں گروہوں کے کاملین کو لے لیتا ہوں۔ یعنی پہلے گروہ کا کامل شخص وہ ہوگا جو اپنے روایتی نقطہ نظر سے اوپر اٹھے گا اور توحید کو مان لے گا پھر ایک اعلیٰ اخلاقی رویے کے مطابق زندگی گزارے گا۔ مگر ظاہر ہے کہ نہ اس تک شریعت کی رہنمائی پہنچی نہ وہ اس کے مطابق عبادات اور دیگر مطلوب اعمال کو اختیار کرے گا۔ یہی معاملہ نبی کے ایک امتی کا ہوگا کہ وہ کامل درجے پر اخلاقیات اور شریعت کے تقاضوں پر عمل کر بھی لے، اپنے فرقہ وارانہ تعصب سے اوپر اٹھ کر نبی کی تعلیم کے مطابق زندگی گزار بھی لے، تب بھی اس کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ نبی کی اس وقت تصدیق کرے جب دنیا اسے گلی بازاروں میں چلنے پھرنے والا، کھانے پینے والا ایک عام بشر مانتی تھی۔ نبی تو اس کا پیدائشی ہیرو اور اس کا تعصب ہے۔ وہ بہت تیر مارے گا تو بہت سے تصورات کی نفی کرکے نبی کی اصل بات تک جاپہنچے گا۔ ساتھ دے گا تو کسی ایسے ہی عالم کا دے گا جو اللہ کے نبی ہی کے نام پر کھڑا ہوگا۔ مگر پھر بھی نبی پہلے دن سے اس کا تعصب اور اس کی محبت ہوگا۔ جبکہ صحابی اس وقت نبی کی تصدیق کرتا ہے جب دنیا اسے کذاب، جادوگر، شاعرا ور مجنون کہہ رہی ہوتی ہے۔ جب نبی اس کے تمام معبودوں کو معبودان باطل قرار دے رہا ہوتا ہے۔ نبی اس کے مصدقہ دینی معمولات کو جھوٹ کا پلندہ اور اس کے اسلاف کے طریقے کو گمراہی کا راستہ قرار دے رہا ہوتا ہے۔ ایسے میں نبی کی تصدیق وہ عمل ہے جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھی بلاشبہ بہت بڑا عمل ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو میرے اور آپ جیسے کسی شخص کے لیے کرنا کسی صورت آج ممکن ہی نہیں الا یہ کہ کوئی نیا نبی آجائے اور یہ دروازہ اب قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے۔
اب یہ فرمایئے کہ ان تینوں گروہوں کے کاملین کا اجر اگر برابر ہو تو اس سے بڑی زیادتی کیا ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جو اخلاقیات کی پیروی کتنے ہی اعلیٰ طریقے پر کر رہا ہو؛ وہ اس کے برابر ہوجائے جو بہترین اخلاقی رویے کے ساتھ شریعت کے تقاضوں کی مشقت جھیلتا اور کثرت عبادت و ذکر سے لمحے لمحے میں خدا کا قرب ڈھونڈ رہا ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شریعت اور اخلاقیات میں آج کا بہترین امتی اس صحابی کے برابر ہوجائے جو ان دونوں میں کمال رکھنے کے ساتھ داخل کے ہر تعصب اور خارج کی ہر مخالفت کو جھیل کر وقت کے نبی کا ساتھ دے رہا ہو۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم میٹرک، انٹر اور گریجویشن کرنے والے تین لوگوں کو ایک جیسا نہیں مانتے۔ چاہے سب نے فرسٹ ڈویژن میں امتحان پاس کیا ہو۔ میٹرک فرسٹ ڈویژن کرنے والا انٹرفرسٹ ڈویژن کے اور انٹر فرسٹ ڈویژن گریجویشن کے برابر نہیں ہوسکتا۔ مگر آپ یہ فرماتے ہیں کہ نہیں جناب آج کا ایک بہترین مسلمان اجر میں انبیاء کرام سے آگے بڑھ سکتا ہے۔ میٹرک اور انٹر فرسٹ ڈویژن سے کرنے والا ماسٹر فرسٹ کلاس فرسٹ ڈویژن میں کرنے والے انبیا سے جنت میں آگے کھڑا ہوسکتا ہے۔ کوئی معقول آدمی ایک لمحے کے لیے بھی یہ منطق ماننے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا۔
میرے نزدیک آپ کی اور برادرم مولانا۔۔۔۔۔ کی غلط فہمی کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے امتحان کی نوعیت کو درست نہیں سمجھا۔ آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہر گروہ کا امتحان بالکل الگ نوعیت کا ہے۔ آپ کے فہم کی درست تمثیل یہ ہے کہ ایک شخص نے ماسٹرز انگریزی ادب میں اور دوسرے نے بھی ماسٹرز کیا ہے مگر اردو ادب میں۔ امتحان کا درجہ ایک ہے مگر امتحان مختلف ہے۔ اس لیے جس نے اپنا امتحان بہتر دیا وہ زیادہ قابل ہے اور اس کے نمبر زیادہ آئیں گے۔ جب کہ میں واضح کرچکا ہوں کہ حقیقت مختلف ہے۔ حقیقت میں امتحان کی نوعیت ہر گروہ کے لیے درجہ بہ درجہ سخت تر ہوتی جارہی ہے۔ اس پس منظر میں صحیح تقابل وہی ہے جو میں نے اوپر واضح کیا ہے کہ ایک گروہ نے میٹرک تک کا، دوسرے نے انٹر اور تیسرے نے گریجویشن تک کا امتحان دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس لیے میٹرک فرسٹ ڈویژن کبھی گریجویشن فرسٹ ڈویژن کے برابر نہیں ہوسکتا۔ اور چونکہ انبیا کے متعلق یہ معلوم ہے کہ وہ ماسٹرز کرتے ہیں اور بہرحال فرسٹ ڈویژن ہی میں ٹاپ کرتے ہیں، اس لیے ان سے کم تر درجے کا کوئی شخص کسی صورت ان کے برابر نہیں پہنچ سکتا۔
یہی وہ پس منظر ہے جس میں وہ سوال اٹھ جاتا ہے کہ ایک شخص روز قیامت اللہ تعالیٰ پر یہ اعتراض کرسکتا ہے کہ مجھے بطور نبی یا اس کے صحابی کے پیدا کیو ں نہیں کیا گیا تاکہ میرا اجر ان جیسا ہوجاتا ۔کیا یہ موقع نہ دیا جانا خلاف عدل نہیں؟ اس گنہہ گار نے اپنے ناول میں اسی اعتراض کا جواب دینے کی حقیر کوشش کی ہے۔ مگر چونکہ یہ پہلی کاوش ہے اس لیے مخالفت، اعتراض اور سوالات کی انہی آندھیوں کی زد میں ہے جو بالعموم ایک نئی چیز کا مقدر ہوتی ہے۔ میرے نزدیک ہر گروہ نے امکانات و خطرات کو دیکھ کر اپنا امتحان خود چن لیا تھا۔ تاہم جیسا کہ میں بار بار واضح کرتا رہا ہوں یہ میرا استنباط ہے نہ کہ قرآن مجید کا صریح بیان ہے۔
اس استنباط تک پہنچنے میں میری پہلی رہنمائی قرآن کریم کی بیان کردہ اس حقیقت نے کی ہے کہ انسان اس امتحان میں اپنی مرضی اور رضامندی سے ہے اور یہ کہ امتحان میں اترنے سے قبل اس سے پوچھا گیا تھا یہ بات قرآن مجید سورہ احزاب آیت 72 کی روشنی میں ثابت ہے۔ چاہے آپ اس واقعے کو حقیقت مانیں یا تمثیل، پیشکش اور اختیار کا ذکر اس میں واضح طور پر موجود ہے۔ دوسری رہنمائی سورہ اعراف آیت 172 میں بیان کردہ یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں آنے سے قبل تمام انسانوں کو ایک دفعہ ضرور پیدا کیا گیا تھا۔ میری تیسری اور فیصلہ کن رہنمائی اللہ تعالیٰ کی ان صفات عالیہ کے بیان نے کی ہے جن سے قرآن کریم بھرا ہوا ہے۔ اللہ کے عدل کا عین تقاضہ ہے کہ وہ اگر پوری انسانیت سے پوچھ کر اس امتحان میں بھیج رہا ہے تو امتحان کی ہر سطح میں بھی لوگوں کو پوچھ کر ہی بھیجنا چاہیے۔ ظاہر ہے یہ واقعہ قرآن میں بیان ہوا ہے نہ اس کی ضرورت ہے، مگر میرے نزدیک قرآن مجید کے درج بالا دو بیانات اور صفات باری تعالیٰ کی جو تفصیل قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے، وہ اس بات کا واضح قرینہ ہیں کہ بندوں پر رائی کے برابر ظلم نہ کرنے والا رب اتنی بے انصافی کا کام نہیں کرسکتا کہ بغیر پوچھے لوگوں کو اس طرح کے سخت امتحان میں دھکیل دے۔
اس ضمن کی آخری بات اس بات کی وضاحت ہے کہ میں اس بات کی کسی پہلو سے نفی نہیں کر رہا کہ کمتر درجہ کے امتحان میں کامیاب ہونے والا یقیناً اس سے بہتر ہے جو برتر امتحان میں ناکام ہوجائے۔ اسی طرح کم تر درجہ کا امتحان دینے والا اگر اپنے امتحان میں اعلیٰ سطح پر کامیابی حاصل کرتا ہے تو یقیناً وہ باعتبار انجام اس شخص سے بہتر ہوگا جو برتر امتحان میں عام سی کارکردگی دکھائے۔ یہ بات عقل و نقل دونوں سے ثابت ہے اور میں نے اپنے ناول میں عبداللہ کے کردار کو ایک ایسی ہی شخصیت کے طور پر پیش کیا تھا جو پچھلوں میں سے تھا، مگر اپنی غیر معمولی کارکردگی کی بنا پر اس اعلیٰ مقام کا حقدار ہوا تھا جو اگلوں کا خاصہ ہے۔ تاہم کامل کا تقابل جب بھی کامل سے ہوگا تو برتر امتحان دینے والے ہی بڑے درجات کے حقدار ہوں گے۔ اس کے دلائل میں پیچھے دے چکا ہوں۔ اس میں مزید اضافہ یہ کرلیجیے انبیاء علیھم السلام کسی پہلو سے غیر کامل نہیں ہوتے اس لیے ان سے بڑھنا یا ان کے برابر آنا بھی، میری ناقص رائے میں، کسی کے لیے ممکن نہیں۔ میں اس ضمن میں کسی طور آپ دونوں حضرات کی اس رائے سے اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں پاتا کہ ایک غیر نبی آخرت میں انبیاء علیہم السلام حتیٰ کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے سے بھی بلند مرتبہ حاصل کرسکتا ہے۔
اس تفصیل کے بعد اس بات کی ضرورت ہی نہیں رہ جاتی کہ مولانا۔۔۔۔۔۔ کے اعتراضات کا کوئی جواب دیا جائے کیونکہ جس فہم پر ان کا نقطہ نظر قائم تھا وہ میں عرض کرچکا کہ غلط فہمی پر مبنی ہے۔ مزید یہ کہ اپنے نقطہ نظر کے حق میں میں نے جو دلائل بعض سائلین کے جواب میں دیے اور ان کی خدمت میں بھی ایک نشست میں پیش کیے، انہوں نے ان کو بھی پوری طرح سمجھے بغیر ان پر دو اعتراضات کردیے۔ ان کے خط میں بیان کردہ اعتراضات اسی وقت کوئی وزن رکھتے جب میں یہ کہتا سورہ احزاب اور سورہ اعراف میں جو واقعات بیان ہوئے ہیں وہ وہی ہیں جن کو بطور ایک واقعہ میں نے ناول میں بیان کیا ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا میرے نزدیک ان آیات میں جو حقائق بیان ہوئے ہیں وہ اس نتیجہ فکر کے مقدمات ہیں جو میں نے اخذ کیا ہے۔ یعنی سب انسان ایک دفعہ پیدا ہوچکے ہیں اور یہ کہ کل انسانیت اس دارالامتحان میں اللہ کی پیشکش کو قبول کرکے آئی ہے۔ میری تردید میں آپ کو ان آیات سے اگر کچھ ثابت کرنا ہے تو یہ ثابت کیجیے کہ ان آیات میں یہ حقائق بیان نہیں ہوئے۔ یہ ثابت کیجیے کہ اعراف کی آیت 172 کی رو سے سارے انسان پہلے پیدا نہیں ہوئے۔ یہ ثابت کیجیے کہ احزابکی آیت 72 کی رو سے انسان کا اختیار ثابت نہیں ہوتا۔
بہرحال میں تو ان آیات سے یہی سمجھتا ہوں۔ اس کے بعد میرے نزدیک اگر اللہ تعالیٰ کے عدل کا یہ تقاضہ ہے کہ انسانیت کو پوچھ کر امتحان کے لیے اس دنیا میں بھیجا جائے تو ایک ایسے وقت میں جب سارے انسان موجود تھے اور انسانوں کو درجہ بہ درجہ مشکل یا آسان نوعیت کے تین چار مختلف امتحانوں میں ڈالا جانا تھا تو عدل کا تقاضہ ہے کہ انہیں ان امتحانوں میں بھی ان کی مرضی دریافت کرکے بھیجا جائے۔ اور یہی میرے نزدیک ہوا ہوگا۔
اس کے بعد برادر عزیز مولانا۔۔۔۔۔ صاحب نے اپنے اس نقطہ نظر کے حق میں کچھ دلائل دیے ہیں جو آپ کا بھی ہے۔ یعنی ایک عام فرد اپنا امتحان اچھی طرح دے تو چاہے وہ نبیوں کی ہدایت سے محروم ایک عام انسان ہو یا ایک مسلمان، درجات میں صحابہ اور انبیا کرام حتیٰ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بلند درجات حاصل کرسکتا ہے۔ گرچہ میں عقلی طور پر اس مقدمے کا غلط اور عدل کے خلاف ہونا ثابت کرچکا ہوں، لیکن مناسب ہوگا کہ ان دلائل کا بھی جائزہ لے لیا جائے جو انہوں نے اپنی بات کے حق میں قرآن کریم سے پیش کیے ہیں۔
برادر عزیز مولانا۔۔۔۔۔ نے اپنے اس نقطہ نظر کے حق میں کہ کوئی بھی شخص کہیں بھی پیدا ہو جنت میں انعام و انجام یکساں ہوگا تین آیات پیش کی ہیں۔ اس عاجز کے نزدیک قرآن کریم کی ان آیات کا اصل مدعا یہ ہے کہ سب کامیاب لوگ جنت میں جائیں گے اور اپنے عمل کے لحاظ سے درجہ پائیں گے۔ یہ بات کہ جنت میں سب لوگوں کے درجات برابر برابر ہوں گے، بہت معذرت کے ساتھ اس کی کوئی دلیل نہ ان آیات میں ہے اور نہ قرآن مجید کی کسی اور آیت میں۔ انہوں نے جو آیات نقل کی ہیں وہ صرف یہ بتاتی ہیں، کامیاب لوگوں کا ایک ہی انجام ہے وہ جنت ہے۔ یہ نہیں بتا رہیں کہ جنت میں سب کے درجات برابر ہیں۔ مثلا پہلی آیت سورہ نساء کی آیت 66 ہیں۔ یہ آیت صرف یہ بتا رہی ہے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والے انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔ اس آیت کا مطلب بالکل سادہ ہے کہ یہ جنت میں ان کے ساتھ ہوں گے۔ یہ بیان نجات ہے۔ اس بات کا بیان نہیں کہ نبی کی اطاعت کرنے والے نبی سے آگے بڑھ جائیں گے۔
قرآن کی اس بات کو ایک عام مثال سے سمجھیں تو یہ مطلب ہے کہ جو لوگ پیسے رکھتے ہیں وہ شہر کے پوش علاقے میں وزیروں، مشیروں اور امیروں کے ساتھ گھر خرید کر رہ سکتے ہیں۔ اس جملہ کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ مقام و مرتبے اور دولت میں ان سے زیادہ ہوجائیں گے۔ یہی قرآن کی دعوت ہے کہ اطاعت کی پونچی جمع کرنے والے جنت کی بستی میں انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ گھر خرید سکتے ہیں۔ قرآن یہاں نجات یافتہ ہونے کی بات کر رہا ہے، جنت میں داخلے کی بات کر رہا ہے۔ اس حیثیت میں تمام نجات پانے والے لوگ یقیناً برابر ہیں کہ ہر کامیاب شخص چاہے ایک نبی ہو یا قیامت سے قبل کا کوئی عام آدمی جنت ہی میں ہوگا۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس جنت میں ان کا انعام و مقام یکساں ہوگا۔ اس آیت میں اس بات کی سرے سے کوئی وضاحت نہیں۔ یہاں اصل شرط اطاعت بیان ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ نبی کی اطاعت ایسی کون سی بڑی چیز ہے جس کے نتیجے میں ایک شخص اجر میں نبی سے بھی بڑھ جائے۔ نبی تو اطاعت بھی کرتا ہے اور دعوت دین کی زبردست جدوجہد بھی کرتا ہے۔ اخلاق کامل کا نمونہ بھی ہوتا ہے اور شریعت پر سب سے بڑھ کر عمل کرنے والا بھی۔ محض اس کی اطاعت، چاہے وہ کتنی اعلیٰ سطح پر کی جائے، یہ کیسے لازم کر دیتی ہے کہ اطاعت کرنے والا اس کے برابر پہنچ گیا یا اس سے بڑھ گیا۔
دوسری آیت سورہ توبہ کی آیت نمبر 100 ہے۔ اس میں آپ کا کہنا ہے کہ سابقین الاولین کے ساتھ متبعین کا ذکر اور سب کو ایک نوید سنانا آپ کے نقطہ نظر کی تصویب کرتا ہے۔ میرے نزدیک یہاں بھی مسئلہ وہی ہے۔ یہاں سب لوگوں کو جو خوشخبری دی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور جنت کے حقدار ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس معاملے میں سب کامیاب اور نجات یافتہ لوگ یکساں ہیں کہ وہ جنت میں جائیں گے اور اللہ کی رضا حاصل کریں گے۔ اس سے یہ نتیجہ کیسے نکل رہا ہے کہ ہر شخص کے لیے اللہ کی رضا کا درجہ اور جنت میں سب کا مقام با لکل ایک جیسا ہوگا۔
تیسری آیت سورہ واقعہ 14-16 ہے ۔سورہ واقعہ کی ابتدائی آیات کا اصل اور بنیادی پیغام یہی ہے کہ انسانیت روز قیامت دو حصوں میں تقسیم ہوگی۔ ایک کامیاب لوگ جو جنت میں ہوں گے اور دوسرے ناکام جو جہنم میں ہوں گے۔ البتہ اس پہلو سے یہ مقام اہم ہے کہ اس میں اہل جنت کو درجات کے حساب سے دو بڑی قسموں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ ایک اصحاب الیمین جو عام جنتی ہیں اور دوسرے السابقون۔ السابقون کے لفظ سے ظاہر ہے کہ اس سے مراد ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں۔ قرآن اس مقام پر یہ بیان کرتا ہے کہ یہ اگلوں میں سے بہت، اور تھوڑے پچھلوں میں سے بھی ہوں گے۔ یہی وہ بات ہے جو ایک آخری وضاحت کے عنوان سے میں نے پیچھے بیان کی ہے۔یعنی ایسے سابقون جو قربانی کے درجے پر دین کے تقاضوں کو نبھاتے ہوں چاہے وہ بعد کے ادوار میں آئے ہوں انہیں اللہ کی قربت کا وہی مقام ملنا چاہیے جو اگلوں کو ملا ہے۔ اس پہلو سے یقیناًان آیات میں بعد میں آنے والوں کے لیے ایک بڑی خوشخبری ہے کہ وہ بھی سبقت کی راہ اختیار کرکے قرب کا مقام پاسکتے ہیں۔ مگر اس آیت کا یہ مطلب کسی صورت نہیں کہ آج کے دور کا ایک کامل امتی نبی کے دور کے کامل امتی کے برابر ہوسکتا ہے۔ آج کا کوئی شخص ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ بلکہ حضرات انبیا علیھم السلام سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔ جیسا کہ شروع میں عرض کیا اس کا کوئی امکان نہیں۔ کیونکہ انہوں نے مشکل ترین پرچہ لیا اور احسن ترین طریقے پر اسے نبھایا۔ جبکہ آج کا مسلمان کتنا ہی مشکل پرچہ اٹھالے وہ بہرحال انبیا اورابتدائی دور نبوت کے مقابلے میں ہلکا ہی ہے۔
یہی وہ بات ہے کہ جو اگلی سورت یعنی الحدید میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔
’’تم میں سے جو لوگ فتح (مکہ) سے پہلے انفاق و جہاد کریں گے (اور جو بعد میں انفاق و جہاد کریں گے) یکساں نہیں ہوگے۔ ان لوگوں کا درجہ ان سے بڑا ہوگا جو بعد میں انفاق و جہاد کریں گے۔ اگرچہ اللہ کا وعدہ ان میں سے ہر ایک سے اچھا ہی ہے۔‘‘،(الحدید10:57)
یہی وہ آیت ہے جو بتاتی ہے کہ بعد میں آنے والے جہاد و انفاق جیسی اعلیٰ ترین عبادات کرکے بھی بہرحال اس مقا م تک نہیں پہنچ سکتے جو ابتدائی صحابہ کا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ دونوں مقربین کے مقام پر ہوں۔ مگر بڑا درجہ ہر حال میں انہی لوگوں کا ہے۔ اس حقیقت کو میں ایک تمثیل سے پیچھے بیان کرچکا ہوں کہ پوش علاقے میں گھر لینا گرچہ انسان کا اسٹیٹس بڑھا دیتا ہے اور وہ طبقہ امراء ہی میں شمار ہوتا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسی علاقے میں رہنے والے وزیر اعظم اور وزرا کی ہمسری کا دعوی بھی کرسکتا ہے۔
یہ اس حوالے سے میری معروضات تھیں۔ ان میں سے جو بات صحیح ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو غلط ہے وہ میرے اپنے نفس کی کوتاہی ہے۔