عمران اور انضمام ۔ ابویحییٰ
عمران خان اور انضمام الحق پاکستانی کرکٹ کے دو ممتاز ترین نام ہیں۔ عمران خان کا شمار دنیا کے بہترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے۔ وہ قومی ٹیم کے کپتان بھی رہے اور ان کی زیر قیادت پاکستان نے غیرمعمولی کامیابیاں حاصل کیں۔ 1986 میں انڈیا کو انڈیا میں، 1987 میں انگلینڈ کو انگلینڈ میں شکست دینا اور 1992 میں ورلڈکپ جیتنا ان کی سب سے نمایاں کامیابیاں ہیں۔ انہوں نے اپنے کیرئیر میں 48 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی، 14 جیتے، 8 ہارے اور 26 برابر رہے۔
انضمام الحق کا اصل میدان بیٹنگ تھا۔ وہ بھی عمران خان کی طرح نہ صرف پاکستان بلکہ کرکٹ کی تاریخ کے عظیم ترین کھلاڑی سمجھے جاتے ہیں۔ بحیثیت کپتان ان کی قیادت میں پاکستان نے 25 میچ کھیلے، 8 جیتے، 8 ہارے اور 9 برابر رہے۔ عمران خان کے برعکس جو اپنی قیادت کے دور میں زیادہ تر ان فٹ رہے، انضمام الحق نے اپنی کپتانی کے دور میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا۔ تاہم ان کی ٹیم عمران خان کی ٹیم کی طرح بڑی کامیابیاں حاصل نہ کرسکی۔
اس کا سبب کرکٹ کے مبصرین یہ بیان کرتے ہیں کہ عمران خان ایک فائٹر کپتان تھے۔ وہ بدترین حالات میں بھی حوصلہ نہیں ہارتے تھے۔ انہوں نے بیشتر کامیابیاں مشکل حالات میں حاصل کی تھیں۔ جبکہ انضمام کی ٹیم پر جب بھی دباؤ آتا ان کی ٹیم پرفارمنس نہ دے پاتی۔ بارہا ایسا ہوا کہ پہلی اننگز میں مخالف ٹیم نے بڑی لیڈ لے لی اور انضمام نے ٹی وی پر یہ بیان دیا کہ اب میچ نہیں بچایا جاسکتا۔ ظاہر ہے اس کے بعد ٹیم کا حوصلہ پست ہونا لازمی تھا۔
اس دنیا میں انسان کا سب سے بڑا سرمایہ حوصلہ ہوتا ہے۔ یہ حوصلہ اگر برقرار رہے تو انسان ناممکن کو ممکن کر دکھاتا ہے۔ وہ بدترین حالات میں بہترین نتائج پیدا کر دیتا ہے۔ اس کا یہ حوصلہ دوسروں کو بھی بہترین نتائج دینے پر آمادہ کر دیتا ہے۔ مگر جب حوصلہ پست ہوجائے تو انسان بہترین صلاحیتوں کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پاتا۔ یہی خدا کی دنیا کا قانون ہے۔