اغفرلی یا رب۔۔۔ اغفرلی ۔ ابویحییٰ
مسجد میں عشاء کی نماز شروع ہوئی۔ امام صاحب کے پرسوزحجازی لہجے نے نمازیوں کے دلوں ہی کو نہیں، مسجد کے در و دیوار کو بھی گرما دیا۔ اسی اثنا میں ایک آواز اوربلند ہوئی اور پھر نماز کی چاروں رکعتوں میں بلند ہوتی رہی آواز سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ کوئی دس بارہ سال کا ابنارمل بچہ تھا۔ یہ اپنی طرف سے قرأت میں امام صاحب کا ساتھ دے رہا تھا، مگر درحقیقت اس کی آوازنے ہر نمازی کی توجہ منتشر کر دی تھی۔
نماز ختم ہوئی تو تمام نمازی غصے کے ساتھ اسی سمت دیکھنے لگے جہاں وہ بچہ تھا۔ امام صاحب نے بھی لوگوں کو تنبیہ کی کہ ایسے مواقع نہ پیدا ہونے دیں ۔ظاہر ہے کہ اس بچے نے پوری جماعت کو ڈسٹرب کر دیا تھا۔ مگر مسجد میں صرف ایک شخص تھا جس کے لیے یہ ابنارمل آواز نماز سے توجہ ہٹانے کے بجائے خدا سے اور قریب کرنے کا سبب بن گئی تھی۔ یہ ہستی عارف کی ہستی تھی۔
جس لمحے بچے کی پہلی آواز آئی تھی وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ کوئی ابنارمل بچہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان کا پورا وجود خدا کی مہربانیوں اور احسانات کے احساس سے زمین بوس ہو چکا تھا۔ وہ شور جو دوسروں کو تکلیف دے رہا تھا، ان کے لیے اپنے مالک کی عنایات کا عجیب تجربہ بن گیا تھا۔ ان کی ساری ہستی خدا کے سامنے سراپا شکر بن گئی۔ اگر خدا ان کوابنارمل بنا دیتا تو؟ اگر خدا ان کی اولاد کو ابنارمل بنا دیتا تو؟ اس سوال کا جواب بس وہ آنسو تھے جو ان کی آنکھوں سے رواں تھے۔
نماز ختم ہوئی تو انھوں نے آسمان کی سمت دیکھ کر کہا۔ پروردگار! میں ہزارجان بھی تجھ پر نچھاور کروں تو تیرے احسانات کا بدلہ نہیں اتارسکتا۔ میری ساری بندگی، تمام خدمت دین تیرے ایک احسان کا بدلہ بھی نہیں اتارسکتی۔ میں پوری زندگی تیری حمد کے نغمے گا کر بھی ایک نعمت کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔ مجھے معاف کر دے ۔ اغفرلی یا رب۔ ۔ ۔ اغفرلی۔