ھم تمہیں نہیں جانتے ۔ ابو یحیی
گاڑی کے پچھلے شیشے پر الله کا نام لکھا دیکھ کر مجھ پر عجیب کیفیت طاری ہوگئی۔ ایسا لگا جیسے کسی اجنبی شہر کے اجنبی لوگوں کے بیچ کوئی شناسا ٹکرا جائے۔ غیروں کی محفل میں اچانک کسی اپنے پر نظر پڑجائے۔ حالانکہ میں کہیں اور نہیں کلمہ گو لوگوں کے شہر کراچی میں ہی تھا۔
اس شہر میں ہر جگہ میں نے غیر ہی کا نام لکھا ہوا دیکھا۔ خدا کے محبوبوں کو اس کا رقیب بناتے دیکھا۔ خدا کا نام کہیں دیکھا تو کسی غیر کے ساتھ رسمی خانہ پوری کے لیے یا بس ایک حفاظتی نسخے کے طور پر۔ وہ کریم جو سب کچھ ہے، جس نے سب کچھ دیا، ہمارے لیے شاید اس انشورنس پالیسی سے زیادہ کچھ نہیں جسے لے کے انسان خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔
ہماری ساری محبت غیر کے لیے ہے۔ خدا کے حصے میں تو بے روح سجدوں اور اس کے نام کی بے معنی تکرار کے سوا کچھ نہیں آیا۔ میں سمجھتا تھا کہ خدا تنہا معبود ہے۔ قانونی طور پر شاید ایسا ہی ہے۔
مگر یہاں کے صنم خانے میں آج تک خدا کے اور بھی بہت سی ہستیاں شریک ہیں۔ انہی کے بت ہیں جن کی پرستش ہوتی ہے اور انہی کی ذات ہے جن سے کرم کی امید ہوتی ہے، انہی سے مدد مانگنے، انہی کی محبت سے سرشار ہونے، انہی کے نام پر جھومنے، انہی کے ذکر پر آنسو بہانے اور انہی کی یاد میں گم رہنے کو لوگ ایمان کا کمال سمجھتے ہیں۔
کاش انہیں کوئی یہ بتائے کہ یہاں سارا اقتدار، سارا اختیار تنہا ایک ہی معبود کے پاس ہے۔ غیر سے مانگنے والے اور غیر کی الفت کا شکار یہ لوگ سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ بھاگنے والوں کو جب موت کی ٹھوکر لگے گی۔ جب حقیقت سے پردہ اٹھے گا تو معلوم ہوگا کہ زندگی فریب میں گزار دی۔ اس روز سب سے بڑی سزا یہ ہوگی کہ جن کے لیے خدا کو چھوڑا اور خدا کو چھوڑ کر جن کو پکارا، وہی کہہ دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تمہیں نہیں جانتے۔ ہم تمہیں نہیں جانتے۔