حوروں کی حیثیت ۔ ابویحییٰ
ناول "جب زندگی شروع ہوگی” پر کچھ قارئین کی طرف سے سوال یا اعتراض حوروں کے بیان کے حوالے سے آیا ہے۔ یہ اعتراض کئی پہلوؤں سے کیا گیا ہے۔ میرے لیے ان اعترضات میں کوئی بات نئی نہیں ہے۔ بہت سے لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو مگر اصل میں یہ اعتراض مسیحی اور مغربی فکر کی طرف سے اسلام اور قرآن مجید پر کئے گئے اعتراضات میں سے ایک ہے۔ مسیحی فکر میں آخرت ایک روحانی معاملہ ہے۔ اس روحانی ماحول میں حسین و جمیل خواتین (حوروں) کی موجودگی ایک انتہائی قابل اعتراض بات ہے۔ یہ روحانیت کے بیچ میں رومانویت اور جنسیت کی وہ موجودگی ہے جو کسی سچے آسمانی مذہب میں نہیں موجود ہوسکتی۔ ان معترضین کے نزدیک ایک روحانی انسان کی طرف سے اس قسم کی باتیں اس کا اپنا کردار ہی مشکوک بنا دیتی ہیں۔ اسی طرح مغربی فکر نے خواتین کو ہر اعتبار سے مردوں کے برابر لا کھڑا کیا ہے۔ اس پہلو سے بھی مردوں کے لیے اضافی طور پر حوروں کا بیان آج جدید تعلیم یافتہ کسی بھی شخص سے ہضم نہیں ہوتا۔
یہ عاجز برسہا برس سے دین اسلام پر یہ اعترضات سنتا رہا ہے۔ یہ اعتراض علمی استدلال سے بڑھ کر تضحیک و تعریض کی جس سطح تک جاپہنچتا ہے اس کا اندازہ درج ذیل مصرعہ سے کیا جاسکتا ہے جس میں جنت کی منظر کشی اس طرح کی گئی ہے۔
سہمی ہوئی حوروں کے پیچھے وحشی ملا بھاگ رہے ہیں
ظاہر ہے کہ اس طرح کی چیزوں کی بنا پر بعض سادہ دل مسلمان بھی حوروں کے ذکر سے وحشت محسوس کرتے ہیں۔ اس میں کچھ نہ کچھ قصور ہمارے ہی بعض حلقوں کا ہے جن کا انداز بیان اس طرح کے طنز و تعریض کو جنم دیتا ہے۔ یہ بہرحال ایک حقیقت ہے کہ کم از کم قرآن مجید جنت کے حوالے سے حوروں کا بیان ایسے نہیں کرتا جس سے اس طرح کا کوئی تاثر پیدا ہو۔ لیکن کیا قرآن مجید اس تصور سے بالکل خالی ہے؟ قرآن مجید کو گہرائی کے ساتھ سمجھ کر پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ قرآن مجید میں واضح طور پر ان کا ذکر موجود ہے۔ پروردگار علم کے بیان کے بعد دنیا اِدھر سےاُدھر ہوجائے، اس بات کو میں پورے اعتماد کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی ہمت رکھتا ہوں۔ بلکہ سماجیات اور نفسیات کا گہرا علم تو یہ بتاتا ہے کہ اس نوعیت کے بیانات اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہیں کہ قرآن مجید ایک آسمانی کتاب ہے جو رب علیم و حکیم کی نازل کردہ ہے۔
اس معاملے میں حکمت کا جو پہلو ہے وہ میں نے ناول کے دو مرکزی کرداروں کے درمیان ہونے والی گفتگو میں واضح کر دیا ہے۔ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اسلام نے دنیا میں حفظ مراتب کے اصول پر میاں بیوی کے رشتے میں مردوں کو ایک درجہ دیا ہے۔ اسی طرح اس دنیا کی ایک دوسری حقیقت یہ ہے کہ اپنی جسمانی کمزوری اور معاشرتی حالات کی بنا پر عام طور پر خواتین معاشی اور جسمانی طور پر اپنے تحفظ کے لیے عملاً مردوں کی محتاج ہوتی ہیں۔ جنت میں یہ صورتحال باقی نہیں رہے گی۔ خواتین مردوں کی بیویاں تو ہوں گی لیکن ہر اعتبار سے ان کے برابر ہوں گی اور کسی پہلو سے ان کی محتاج بھی نہیں ہوں گی۔ البتہ مرد جس پہلو سے دنیا میں ان کے محتاج تھے، جنت میں بھی رہیں گے۔
مردوں کا یہ مسئلہ مغربی فکر کے پیدا کردہ اعتراض کا جواب بھی ہے۔ وہ مرد و زن میں جس مساوات کے علم بردار ہیں وہ جنت میں پوری طرح موجود ہوگی، لیکن اس کے نتیجے میں خواتین کے نہیں بلکہ مردوں کے حقوق کے حوالے سے مسئلہ ہوجائے گا۔ لہٰذا یہ اعتراض کہ مردوں کے لیے اضافی طور پر حوروں کا بیان ناانصافی پر مبنی ہے ہماری اس وضاحت کے بعد باوزن نہیں رہتا۔ پھر مزید یہ بھی واضح رہے کہ مرد و عورت کی نفسیات کا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ دونوں نفسیاتی طور پر مختلف واقع ہوئے ہیں۔ خواتین کی بنیادی نفسیاتی ضروت یہ ہوتی ہے کہ وہ دوسری خواتین کے درمیان نمایاں اور توجہ کا مرکز ہوں اور انہیں اہمیت ملتی رہے۔ یہ مقام جنتی خواتین کو حوروں کی موجودگی کے باوجود اس لیے حاصل رہے گا کہ جنت انہوں اپنے عمل سے کمائی ہے۔ ان کا اسٹیٹس، ان کی خوبصورتی ظاہر ہے حوروں سے برتر ہوگی۔ اس بنا پر کی مرکزی حیثیت اور مقام کوئی نہیں لے سکتا۔ مردوں کے مسائل البتہ خواتین سے کچھ مختلف ہوتے ہیں۔ میں نے اس فرق کو اس جملے سے واضح کیا تھا کہ مرد عورتوں کے لیے ضرورت ہوتے ہیں اور عورتیں ان کے لیے ضرورت سے بڑھ کر ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہیں۔ اس معاملے کی تفصیلات پر یہ عاجز پردہ ہی ڈلا رہنا مناسب سمجھتا ہے۔ تاہم یہ ایک واقعہ ہے کہ خواتین کو میڈیا اور اشتہارات میں بے دریغ استعمال کرکے اس حقیقت کو جتنا مغربی تہذیب نے بے پردہ کیا ہے شاید انسانی تاریخ میں کسی نے نہیں کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ اس عاجز نے اگر حوروں کے بیان میں اگر اتنی تفصیل کی تو اس کے اصل مخاطب ہمارے وہ نوجوان ہی تھے جو فحاشی، عریانی اور طرح طرح کی بے ہودگیوں کے اس ماحول میں جی رہے ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا اور سب سے بڑھ کر انٹرنیٹ پر جس طرح خواتین کے جسم اور شکل کو جس طرح استعمال کیا گیا ہے، قرآن مجید پر اعتراض کرنے والے لوگ پہلے اس’’عورت فروشی‘‘ کو بند کروا کے دکھا دیں۔ جب یہاں آزادی کے نام پر اس کو جائز قرار دے دیا گیا ہے تو پھر قرآن مجید پر اعتراض کا کیا موقع باقی رہ جاتا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک تو اعتراض کرنے والے لوگ نادانستہ طور پر قرآن مجید کی آپ تصدیق کر رہے ہیں۔ انہوں نے تو خواتین کو استعمال کر کے یہ بتا دیا ہے کہ مردوں کی اصل کمزوری یا ان کے مسائل کیا ہوتے ہیں اور وہ کس طرح خواتین سے مختلف ہوتے ہیں۔ اور اس معاملے میں عین مساوات کا مطالبہ غیر فطری ہے۔
یہی انسانی نفسیات ہی وہ چیز ہے جو مسیحی فکر کے اعتراض کا جواب بھی ہے۔ قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض کرتا چلوں کہ مسیحی فکر کا اعتراض یہ تھا کہ جنت کے روحانی ماحول میں حوروں کا ذکر ایک نامناسب بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ روحانیت اگر ایسے ہی ضائع ہوجاتی ہے تو بے چاری حوروں پر الزام دھرنے کے کیا معنی ہیں، یہ ’’روحانیت‘‘ تو جنتی خواتین کی موجودگی ہی غارت کر دے گی۔ اب یا تو وہ جنت سے بھی خواتین کو نکالیں یا پھر ان کو مجبور کریں کہ وہاں بھی وہ راہباؤں کی زندگی گزاریں۔ قرآن مجید ایسی کسی روحانیت کا قائل نہیں۔ نہ اس کی روحانیت کسی خوبصورتی اور جمالیات سے ضائع ہوتی ہے۔ بلکہ ہمارا تو یقین ہے کہ ہر خوبصورتی اللہ ہی کی پیدا کردہ ہے۔ وہ ہمیں ہمارے رب سے قریب کرتی ہے۔ اس کی شکر گزاری کا موقع دیتی ہے۔ بس ہم اس کی حدود میں رہ کر ان سے استفادہ کریں۔ میں کبھی بخاری و مسلم کی اس دعا کو دہراتا ہوں تو اسلام کے تصور روحانیت پر حیران رہ جاتا ہوں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو تعلق زوجین کے موقع پر ایک دعا (اللھم جنبنا وجنب الشیطٰن ما رزقتنا) کی تعلیم کرتے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اسلام نے تو روحانیت کا تصور بدل ڈالا ہے۔ یہ ترک دنیا، ترک جمالیات اور ترک لذات کا نام نہیں۔ یہ ان سب چیزوں کے درمیان رہ کر رب کو یاد رکھنے کا نام ہے۔ یہی دنیا میں ہمیں سکھایا گیا ہے اور یہی ہمارا تصور جنت ہے جو قرآن مجید ہمیں عطا کرتا ہے کہ وہاں رب بندے اس کی حضوری میں جیئیں گے اور اس کی نعمتوں سے استفادہ کرکے اس کا شکر بجا لائیں گے۔
ان وجوہات کی بنا پر میرا یہ واضح نقطہ نظر ہے کہ حوروں کا مطلب وہی ہے جو قرآن مجید کے بیانات سے واضح طور پر سمجھ میں آتا ہے۔ یعنی یہ حوریں دیگر نعمتوں اور انعامات کے علاوہ بطور انعام اہل جنت سے بیاہی جائیں گی، (دخان54:44،طور 20:52)۔ قرآن مجید نے ان کے جمال و خوبصورتی کو کئی مقامات پر باہتمام بطور نعمت بیان کیا ہے (واقعہ22-23:56، رحمن69-72:55)۔ قرآن مجید کے اسالیب و بیانات واضح کرتے ہیں کہ یہ عام اہل جنت خواتین نہیں ہوں گی بلکہ ان سے ہٹ کر وہ خواتین ہوں گی جو اہل جنت کو بطور انعام و نعمت عطا کی جائیں گے اور پہلی دفعہ مردوں سے بیاہی جارہی ہوں گی (رحمن74:55) وغیرہ۔