ہیپی اینڈ ۔ شمائلہ عثمان
انسان کا مزاج ہے کہ وہ ہر چیز کا ہیپی اینڈ (Happy End) چاہتا ہے اور اسی ہیپی اینڈ (Happy End) سے دل میں طمانیت اور سکون محسوس کرتا ہے۔ اسی مزاج کے پیش نظر اکثر فلمیں، ڈرامے، کہانیاں، ناول زیادہ تر ہیپی اینڈ (Happy End) یا ’’سب ہنسی خوشی رہنے لگے‘‘ پر ختم ہوتی ہیں، جو عملی زندگی میں ناممکن ہے۔
اس دنیا میں بھی جو چیزیں بظاہر خوشیاں دیتی ہیں وہ ساتھ ساتھ اپنے مسائل بھی لے کر آتی ہیں۔ مثلاً اچھی جاب خوشی کے ساتھ نئے چیلنجز دیتی ہے۔ دو پیار کرنے والوں کا مل جانا عملی زندگی میں نئی دنیا متعارف کرواتا ہے۔ جس میں معاشی مسائل سے لے کر اولاد کی صحت، تعلیم و تربیت سب شامل ہیں۔
پھر جو کچھ انسان پاتا ہے ضروری نہیں کہ وہ بھی آئیڈیل صورت حال ہو۔ غرض کہ گھر کے نظم و نسق چلانے سے لے کر کاروبار چلانا حتیٰ کہ اقتدار کا مل جانا جو بظاہر بڑی کامیابیاں لگتی ہیں درحقیقت نہ ختم ہونے والے چیلنجز ہیں۔ جن سے نبرد آزما ہوتے ہوتے انسان قبر کی آغوش میں سما جاتا ہے۔ یہ موت انسانی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اس لیے انسانی فطرت، موت جیسی حقیقت کو بھی خوشی سے قبول نہیں کرتی۔
لیکن دین فطرت ہمیں بتاتا ہے کہ ہیپی اینڈ (Happy End) ہمیشہ کے لیے اس ابدی زندگی کے ساتھ منسلک ہے جہاں نہ کوئی ختم ہوگا نہ فکر و پریشانی اور اس ہیپی اینڈ (Happy End) کی تیاری ہمیں یہاں رہ کر کرنی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ انسان اس ہیپی اینڈ (Happy End) کے لیے کتنی تیاری کرتا ہے۔