ہنسی تو آتی ہوگی ۔ جاوید چوہدری
زندگی شان دار گزر رہی تھی، وہ صبح دفتر جاتا تھا، شام کو ٹینس کھیلتا تھا اور رات دوستوں کے ساتھ پب میں گپ لگا کر گھر واپس چلا جاتا تھا اور اگلے دن سے دوبارہ روٹین شروع ہوجاتی تھی، یہ معمول چل رہا تھا لیکن پھر ایک معمولی سا واقعہ پیش آیا اور زندگی کا سارا دھارا بدل گیا، وہ روڈ کراس کر رہا تھا، اچانک گلی سے تیز رفتار گاڑی نکلی، وہ ہوا میں اچھلا، فٹ پاتھ پر گرا اور بے ہوش ہوگیا، ایمبولینس آئی اور اسے ہسپتال پہنچا دیا گیا، جسم سے بے تحاشا خون نکل گیا، اسے فوری طور پر خون لگا دیا گیا۔
وہ چند دن ہسپتال میں رہا اور پھر معمول کی زندگی کی طرف واپس آگیا، سال بعد وہ ایکسیڈنٹ کو بھول چکا تھا لیکن ایک دن اس کے پیٹ میں شدید درد اٹھا، وہ دوبارہ ہسپتال پہنچا، معائنہ ہوا تو پتا چلا اس کا جگر تقریباً جواب دے چکا ہے، وہ اب زیادہ دنوں کا مہمان نہیں، یہ خبر روح فرسا تھی، وہ ہمت ہار گیا اور خود کو ڈاکٹروں اور ہسپتال کے حوالے کر دیا، ڈاکٹروں نے اس سے سوال جواب شروع کیے تو پتا چلا یہ شراب اور سگریٹ نہیں پیتا تھا، یہ لندن کے جس علاقے میں رہتا تھا وہاں پانی، فضا اور خوراک تینوں صاف ستھری تھیں اور یہ زندگی میں کبھی بیمار بھی نہیں ہوا اور اس کی زندگی میں ایک روڈ ایکسیڈنٹ کے علاوہ کوئی حادثہ، کوئی بری چیز نہیں تھی، پھر اس کا جگر کیسے جواب دے گیا؟ ڈاکٹروں کو یہ سوال پریشان کر رہا تھا، فلپ کے انٹرویوز کے دوران پتا چلا ایکسیڈنٹ کے بعد اسے خون دیا گیا تھا چناں چہ خون میں کوئی نہ کوئی ایسا عنصر ہوسکتا ہے جس نے اس کا جگر گلا دیا ہو، خون کا ڈونر تلاش کیا گیا، ڈونر نے مختلف اوقات میں سات لوگوں کو خون دیا تھا، ان تمام کا ڈیٹا نکالا گیا، پتا چلا سات میں سے تین کا جگر گل چکا ہے، ڈاکٹروں نے ڈونر کو ہسپتال میں بند کر دیا اور اس پر تجربات شروع کر دیے، آگے چل کر پتا چلا کہ اس کے خون میں ایک عجیب سا وائرس پایا جاتا ہے، اس وائرس کو خون کے دوسرے جرثوموں سے الگ کرلیا گیا۔
میں بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو بتاتا چلوں، 1960ء کی دہائی میں خون کی منتقلی کے بعد مریضوں میں دو قسم کے وائرس نکل آتے تھے، ماہرین نے پہلے وائرس کو ہیپاٹائٹس ایاور دوسرے کو ہیپاٹائٹس بی کا نام دے دیا، یہ دونوں چند دنوں کے لیے خون کے سرخ جرثومے کم کر دیتے تھے، مریض کو یرقان ہوتا تھا اور یہ پھر تھوڑے دنوں میں ختم ہوجاتا تھا، یہ جگر کو مستقل نقصان نہیں پہنچاتا تھا، فلپ اور اس کے ڈونر کے جسم سے ملنے والا وائرس ہیپاٹائٹس اے اور بی دونوں سے مختلف تھا۔
یہ خوف ناک تھا اور یہ چند دنوں میں مریض کا جگر تباہ کر دیتا تھا، ماہرین کی ٹیم میں مائیکل ہاؤٹن (Michael Houghton) نام کا ایک نوجوان ڈاکٹر بھی شامل تھا، مائیکل شعبہ وائرالوجی کا ایکسپرٹ تھا، وہ فلپ اور ڈونر کی فائل گھر لے گیا اور دو ہفتے اس پر کام کرتا رہا یہاں تک کہ اس نے وائرس کو شناخت کرلیا، اس کا کہنا تھا یہ وائرس نیا ہے، یہ ہیپاٹائٹس اے اور بی دونوں سے مختلف ہے اور یہ براہ راست جگر کو نقصان پہنچاتا ہے، ڈاکٹر مائیکل نے وائرس کو ہیپاٹائٹس سی کا نام دے دیا اور اپنے پروفیسروں کو بتا دیا کہ یہ وائرس مستقبل میں خوف ناک ثابت ہوگا اور یہ کروڑوں لوگوں کی زندگیاں نگل جائے گا۔
چناں چہ ہمیں فوراً انٹرنیشنل الارم بجا دینا چاہیے، پروفیسروں نے مائیکل ہاؤٹن کی دریافت ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو بھجوا دی اور ڈبلیو ایچ او نے 1978ء میں پوری دنیا کو ہیپاٹائٹس سی کی اطلاع دے دی۔ مائیکل ہاؤٹن کے لیے تالیاں بجنا شروع ہوگئیں، یہ 28 سال کی عمر میں میڈیکل سائنس کا سٹار بن گیا اور یونیورسٹیاں اسے لیکچر کے لیے بلانے لگیں، وہ خوش ہوگیا لیکن پھر یہ 1980ء میں نیویارک کی یونیورسٹی آف روچسٹر میں لیکچر کے لیے گیا۔
لیکچر کے دوران اس نے ہیپاٹائٹس سی کے بارے میں بتانا شروع کیا تو ہال میں موجود ایک ڈاکٹر نے ہاتھ کھڑا کیا اور مائیکل سے کہا، سر! کیا آپ کا کام وائرس تلاش کرنے کے بعد ختم ہوگیا؟ مائیکل کے لیے یہ سوال غیرمتوقع تھا، یہ چند لمحوں کے لیے چکرا گیا اور پھر اس کے منہ سے نکل گیا نہیں، میں اب اس وائرس کا علاج بھی دریافت کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر نے تالی بجائی اور پھر کہا، جناب میں آپ کی ٹیم میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ مائیکل نے اثبات میں سر ہلا دیا، وہ نوجوان لیکچر کے بعد مائیکل کو کیفے ٹیریا لے گیا اور یہاں سے دنیا کی دل چسپ ریسرچ شروع ہوگئی۔
اس نوجوان ڈاکٹر کا نام ہاروے جے آلٹر تھا اور یہ این آئی ایچ ریسرچ ہسپتال میں متعدیا مراض کا ماہر تھا، آلٹر نے مائیکل کے ساتھ مل کر ریسرچ شروع کر دی، اس دوران واشنگٹن یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کا ایک ریسرچر چارلس ایم رائس بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا، یہ بائیو کیمسٹری کا ایکسپرٹ تھا اور یہ ڈبلیو ایچ او اور این آئی ایچ میں کام کرتا تھا، ڈاکٹر چارلس نے ہیپاٹائٹس سی کو لیبارٹری میں بنانے اور چمپینزی پر تجربہ کرنے کی حامی بھر لی۔
ڈاکٹر آلٹر نے 1988ء میں ڈاکٹر مائیکل کی ریسرچ کی تصدیق کر دی اور دنیا کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ یہ وائرس بڑی تیزی سے پھیل رہاہے اور یہ چند برسوں میں پوری دنیا میں اپنے پنجے گاڑھ دے گا، یہ انکشاف خوف ناک تھا اور اس کے بعد اس کو کنٹرول کرنے کا سوال تھا اور اس کے لیے ٹیم کو ڈاکٹر چارلس ایم رائس کی ضرورت تھی، ڈاکٹر چارلس لیبارٹری میں جت گیا اور اس نے 1997ء میں ہیپاٹائٹس سی کو لیبارٹری میں کلون کرلیا، ڈاکٹر چارلس نے کلون وائرس چمپینزی کے جسم میں داخل کر دیا۔
وائرس اس کے جگر میں پہنچا، ملٹی پلائی ہونے لگا اور اس نے دیکھتے ہی دیکھتے چمپینزی کا جگر گلانا شروع کر دیا، ڈاکٹر چارلس کی ٹیم چمپینزی کا معائنہ کرتی رہی، ٹیم نے بعد ازاں چمپینزی پر مختلف ادویات آزمانا شروع کر دیں، یہ ان کے اثرات بھی دیکھتے رہے، یہ تجربہ 2000ء تک جاری رہا، ڈاکٹر چارلس نے تجربہ مکمل ہونے کے بعد اپنی رپورٹ ڈاکٹر آلٹر اور ڈاکٹر مائیکل کو بھجوا دی، دونوں نے اپنا فیڈ بیک اس میں شامل کیا اور یہ رپورٹ ڈبلیو ایچ او کے حوالے کر دی یوں دنیا میں ہیپاٹائٹس سی کا علاج دریافت ہوگیا۔
انسانیت جگر کے کینسر کے گڑھے میں گرتی گرتی بچ گئی ۔یہ تینوں ڈاکٹرز انسانیت کے محسن ہیں۔ چناں چہ نوبل انعام کمیٹی نے انہیں پانچ اکتوبر 2020ء کو طب کے شعبے میں گراں قدر خدمات کے صلے میں نوبل انعام دے دیا۔ دنیا میں 32 کروڑ لوگ ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہیں، ان میں سے صرف تین کروڑ لوگ اپنے مرض کے بارے میں جانتے ہیں جب کہ 29 کروڑ لوگ یہ وائرس اپنے جگر میں چھپا کر پھر رہے ہیں، دنیا میں ہر سال 18 لاکھ نئے لوگ اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔
ان میں سے چار لاکھ جاں بحق ہو جاتے ہیں، مصر ہیپاٹائٹس سی میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے، اس کی چھ اعشاریہ تین فیصد آبادی اس خوف ناک وائرس کا شکار ہے، پاکستان مصر کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے، ہمارے ملک کے ڈیڑھ کروڑ لوگ اس میں مبتلا ہیں، سب سے زیادہ مریض پنجاب کے پانچ اضلاع خانیوال، ننکانہ صاحب، شیخو پورہ، اوکاڑہ اور فیصل آباد میں ہیں جب کہ باقی علاقوں کے لوگ اس کے بارے میں جانتے ہی نہیں ہیں، یہ پاکستان میں تیزی سے پھیلنے والا مرض ہے۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے امریکا میں ہیپاٹائٹس سی کے 24 لاکھ اور برطانیہ میں صرف دو لاکھ 15 ہزار مریض ہیں، یہ ملک بڑی حد تک اس موذی مرض سے پاک ہورہے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکا اور برطانیہ کے طبی ماہرین نے چالیس سال کی مسلسل ریسرچ کے بعد اس کا علاج دریافت کرلیا جس کے بعد دنیا فیصلہ کر رہی ہے یہ 2030ء تک اس مرض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی اور آپ یہ جان کر مزید حیران ہوں گے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مریض ہونے کے باوجود پاکستان اور مصر کا اس ریسرچ میں کوئی کنٹری بیوشن نہیں۔
ہم پچاس برسوں میں کل مریضوں کا ڈیٹا تک جمع نہیں کرسکے، ہم عوام کو ہیپاٹائٹس سی کے بارے میں آگاہی تک نہیں دے سکے، ہم نے ڈیڑھ کروڑ مریضوں کے باوجود ابھی تک ملک میں ہیپاٹائٹس سی کا ٹیسٹ بھی لازم قرار نہیں دیا جب کہ امریکا اور برطانیہ کے کافر ڈاکٹروں نے چالیس سال دن رات ایک کر کے ہمارے لیے علاج بھی دریافت کرلیا اور یہ اگلے دس برسوں میں مصر اور پاکستان سے یہ مرض ختم کرنے کی قسم بھی کھا رہے ہیں، آپ ہم اہل ایمان کی ایمان داری دیکھیے اور اس کے بعد کافروں کا کفر ملاحظہ کیجیے۔
ہم نے اپنی بیماریوں کے علاج کا فریضہ بھی کافروں کو سونپ دیا ہے، ہم آج کورونا کے علاج کے لیے بھی مسجدوں میں اللہ سے گڑگڑا کر درخواست کر رہے ہیں کہ یا باری تعالیٰ کافروں کو ہمت عطا کر یہ کورونا کی ویکسین تلاش کرلیں تا کہ ہم یہ ویکسین استعمال کر کے تگڑے ہوسکیں اور ہم پھر ویکسین بنانے والے کافروں کو نیست و نابود کرسکیں، ہم ان کی کفرانہ لیبارٹریاں اور ریسرچ سنٹر تباہ کرسکیں، یا باری تعالیٰ ہمیں ہمت عطا فرما۔
مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے ہماری دعاؤں پر مشیت الٰہی کو بھی ہنسی ضرور آتی ہوگی، قدرت بھی ضرور مسکرا اٹھتی ہوگی۔ [بشکریہ: ایکسپریس نیوز]