ہمیں شکایت ہے ۔ ابویحییٰ
موجودہ دور میں بڑے پیمانے پر اپنی اشیا کی فروخت کے لیے مارکیٹنگ ایک بنیادی شرط بن چکی ہے۔ اس مقصد کے لیے کمپنیاں ایک بہت بڑا بجٹ خاص کرتی ہیں۔ اس بجٹ کا بیشتر حصہ میڈیا وغیرہ پر اشتہارات کی مد میں خرچ ہوتا ہے۔ تاہم کچھ کمپنیاں مارکیٹنگ کا ایک براہ راست طریقہ بھی اختیار کرتی ہیں۔ اس طریقے میں کمپنیاں اپنی مصنوعات براہ راست صارف کو مفت میں فراہم کرتی ہیں۔ صارف ان چیزوں کو استعمال کرتے ہیں اوراگر انہیں چیز پسند آجائے تو مستقل خریدار بن جاتے ہیں۔
مارکیٹنگ کے اس طریقہ کار سے ہم میں سے بہت سے لوگوں کا واسطہ پڑا ہوگا۔ بارہا ہمیں کسی شاپنگ سنٹر سے باہر نکلتے ہوئے کمپنی کے نمائندے ملے ہوں گے ہیں جو اپنی مصنوعات مفت تقسیم کرتے ہیں۔ لوگوں کو اگر یہ اطمینان ہوجائے کہ کسی طرح کا دھوکہ نہیں ہو رہا تو وہ مفت ملنے والی ایسی چیزوں کو خوشی خوشی لیتے ہیں۔
مارکیٹنگ کے اس طریقے کی کامیابی کی وجہ انسان کی یہ نفسیات ہے کہ وہ مفت میں ملنے والی چیزیں بڑی خوشی سے لے لیتا ہے۔ یہ نفسیات اس حقیقت کی بنا پر پیدا ہوتی ہے کہ اس دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے کو مفت میں چیزیں نہیں دیتا۔ ہر چیز کی قیمت ہوتی ہے اور قیمت کے بغیر چیز نہیں ملا کرتی۔ چیز جتنی ضروری اور اہم ہوتی ہے اس کی قیمت اسی حساب سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
تاہم اس دنیا میں اس حوالے سے ایک انتہائی حیرت ناک استثنا پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ جو چیزیں سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہیں وہ سب کی سب بالکل مفت اور باکثرت دستیاب ہیں۔ مثلاً دنیا کی سب سے زیادہ قیمتی چیز زندگی ہے۔ وہ ہر شخص کو مفت میں ملی ہے۔ پھر زندگی کو برقرار رکھنے اور اسے پرلطف بنانے کے سارے سامان مفت میں دستیاب ہیں۔ مثلاً ہوا، پانی، دھرتی، موسم، دن، رات اور پھر وجود انسانی کے اعضا و قویٰ اور جوڑ و بند وغیرہ۔ یہ ان لاتعداد نعمتوں میں سے صرف چند کے نام ہیں جن کے بغیر زندگی ممکن ہے نہ اسے گزارنا آسان ہے۔
اسے ایک سادہ ترین مثال سے یوں سمجھیں عمر بڑھنے کے ساتھ گھٹنے کے جوڑوں کا درد عام بات ہے۔ یہ درد بہت اذیت ناک ہوتا ہے اور کئی پہلوؤں سے آدمی کو ناکارہ کردیتا ہے۔ تاہم آج کل گھٹنے بدلنے کی ٹیکنیک عام ہوگئی ہے۔ تقریبا دس بارہ لاکھ روپے میں ایک تکلیف دہ عمل کے بعد گھٹنے بدلے جا سکتے ہیں۔ گو پھر بھی یہ اصل گھٹنوں کا بدل نہیں ہوتے لیکن بہ مشکل تمام انسان ایک نارمل زندگی گزار سکتا ہے۔
دوسری طرف تمام انسان یہ گھٹنے مفت میں لے کر گھومتے ہیں۔ اس پر قیاس کیا جائے تو ہمارے تمام اعضا وجوارح، جوڑ و بند اور قوت وصلاحیت کی مالیت اربوں تک جا پہنچتی ہے۔ یہ سب ہمیں مفت میں ملا ہے۔ مگر کبھی اس کا احساس تک نہیں ہوتا۔ یہی معاملہ خارج کی نعمتوں کا ہے۔ ہوا ہو یا پانی، سورج کی کرن ہو یا دھرتی کی مٹی؛ یہ انمول چیزیں مفت میں اور انتہائی کثرت سے بآسانی دستیاب ہیں۔ مگر کمال ہے کہ ہمیں کبھی اس کا احساس نہیں ہوتا۔
ہمارے دل میں کبھی اس ہستی کی سچی یاد نہیں جاگتی جو یہ سب ہمیں دیتا چلا جاتا ہے۔ آنکھیں اس کے اعتراف نعمت میں نم نہیں ہوتیں ۔۔۔ احساس کی دنیا اس کی محبت سے سرشار نہیں ہوتی۔۔۔ جذبات کی دنیا میں احسان مندی کی لہر ہلچل نہیں مچاتی۔ ہمیں بس اس سے شکایت رہتی ہے۔ دوسروں کو گاڑی کیوں ملی، مجھے کیوں نہیں ملی۔ دوسرے کا بنگلہ کیوں ہے میرا کیوں نہیں۔ دوسرے کی بیوی اتنی خوبصورت ہے میری کیوں نہیں۔ ہم یہ نہیں سوچتے کہ گاڑی ہوتی مگر ٹانگیں نہ ہوتیں، بنگلے ہوتے مگر ہاتھ نہ ہوتے، خوبصورت بیوی ہوتی مگر آنکھیں نہ ہوتیں تو کیا ہوتا۔
اس سب کے باوجود ہمیں شکایت ہے۔ مالک! ہمیں پھر بھی آپ سے شکایت ہے۔