ہمہ یاراں دوزخ ۔ ابو یحیی
برگیڈیئر صدیق سالک مرحوم (1935-1988) ایک صاحب قلم فوجی تھے۔ وہ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں ہندوستانی فوج کی قیدمیں چلے گئے اور دو برس قید و بند میں گزارے۔ اپنی اس قید کی داستان انہوں نے ’’ہمہ یاراں دوزخ‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں تحریر کی۔ قید کے ابتدائی مرحلے میں صدیق سالک صاحب کو قید تنہائی میں رکھا گیا۔ قید و بند کے اس مرحلے کا احوال انہوں نے کتاب کے باب ’’قیدی نمبر 10‘‘ میں بیان کیا ہے۔
دشمن ملک میں قید تنہائی کی یہ قسم گزری تو بہت سے لوگوں پر ہوگی، مگر ایک ادیب ہونے کے ناطے صدیق سالک نے جس طرح اس قید کا احوال لکھا ہے، وہ انسان کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ اس قید میں سالک صاحب کو زیر زمین ایک ایسے سیل میں رکھا گیا تھا جہاں رات تو کجا دن میں بھی روشنی کے گزرنے کا کوئی امکان نہ تھا۔ قبر نما یہ سیل چھ مربع فٹ کی ایک ایسی کال کوٹھری تھی جس میں انسان پھینکا تو جاسکتا ہے، جی نہیں سکتا۔
تنگی و تنہائی اور تاریکی و وحشت کے اس ماحول میں ان کا ساتھ دینے کے لیے اس سیلن زدہ سیل میں کوئی تھا تو وہ موسم سرما کی شدید ٹھنڈ تھی یا پھر مچھر، کھٹمل اور پسوؤں کی ایک بڑی تعداد ان کا لہو پینے کے لیے وہاں موجود تھی۔ یا پھر ان کے اندر سے ابلتی بلکتی بھوک اور نیند کی جبلتیں تھیں جن کی تسکین کے لیے حالات آخری درجے میں ناسازگار تھے۔ وہاں اگر کوئی انسان تھا تو باہر تعینات وہ سنتری تھا جو انہیں اس کال کوٹھری میں لیٹے یا دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے دیکھتا تو مغلظات اور گالیوں سے ان کی خبر گیری کرتا۔
صدیق صاحب نے اس پورے مرحلے کا احوال جس طرح بیان کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک عام قاری کے لیے یہ قوموں کی دشمنی، جنگوں کی ہولناکی اور قید کے احوال کے اعتبار سے ایک موثر تحریر ہوگی، مگر ایک بندہ مومن کی نظر سے یہ دوزخ کے عذاب کا ایک تعارف ہے۔ قرآن مجید میں دوزخ کی جو سزائیں بیان ہوئی ہیں ان میں سے سب سے ہلکی سزا وہ ہے جو سورہ فرقان (13:25) میں اس طرح بیان ہوئی ہے کہ اہل جہنم دوزخ میں کسی تنگ جگہ پر باندھ کر پھینک دیے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور جب یہ اس کی کسی تنگ جگہ میں باندھ کر ڈال دیے جائیں گے تو اس وقت اپنی ہلاکت کو پکاریں گے۔ آج ایک ہی ہلاکت کو نہ پکارو بلکہ بہت سی ہلاکتوں کو پکارو۔‘‘
سالک صاحب کی تحریر پڑھ کر ان آیات کی ایک بہترین تشریح سامنے آتی ہے۔ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ دوزخ کا بظاہر کم نظر آنے والا عذاب بھی انسانی برداشت کے لیے اتنا زیادہ ہے کہ کوئی انسان اس کو جھیلنے کی تاب نہیں رکھتا۔ قرآن مجید اس عذاب ہی کو واضح نہیں کرتا بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ عذاب ناشکری کے بدترین جرم کی سزا ہیں۔ یہ ناشکری کیا ہوتی ہے، اس کی بڑی خوبصورت وضاحت بھی سالک صاحب کی اس کتاب میں ملتی ہے۔ وہ اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ اس قید سے ذرا دیر کی رہائی میں انہیں وہ مناظر فطرت بھی کیسی قیمتی چیز محسوس ہوئے جن کے درمیان ہمارے صبح شام گزرتے ہیں اور ہم کبھی ان پر توجہ بھی نہیں دیتے۔ اس بیان کو ذرا ان ہی کی زبانی سنیے:
’’آدھ گھنٹے بعد مجھے پھر روئے زمین پر آنے کی دعوت ملی۔ میں نے پھر مناظر قدرت کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ پیپل کے پتے جھڑتے دیکھے۔ اس پر جنگلی چوہے چڑھتے دیکھے۔ غسل خانے کی منڈیر پر کبوتروں کو مصروفِ غٹرغوں پایا۔ ۔ ۔ صحن سے ایک فاختہ کو فکر آشیاں بندی میں تنکے اکٹھے کرتے دیکھا۔ غلاظت کے ڈھیروں سے کوؤں کو چاول اور چیلوں کو تلاش گوشت میں اس پر جھپٹتے دیکھا۔ بس کچھ نہ پوچھیے ان عیاش آنکھوں نے کیا کیا ضیافت نہ اڑائی۔ رستی بستی دنیا کی ایک جھلک دیکھ لی اور پھر چوبیس گھنٹے کے لیے زیر زمین دفن!‘‘
فطرت کی حسین دنیا کا یہ نظارہ جو آسمان سے زمین تک پھیلے ہوئے رنگوں ، روشنیوں ، اور نظاروں پر مشتمل ہے ان اربوں کھربوں نعمتوں میں سے صرف ایک نعمت ہے جس میں ہم جیتے ہیں۔ وگرنہ زندگی، اس کی بقا اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے جو ساز و سامان اس کائنات میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے دے رکھے ہیں ان کی کوئی قیمت نہیں دی جاسکتی۔ یہ سب کچھ ہمیں مفت میں ملتا ہے۔ ہوا، پانی، غذا، قویٰ، صحت، طاقت، رشتے ناتے، مال و اسباب غرض ہر جگہ یہ نعمتیں بے حساب بکھری ہوئی ہیں۔ مگر ہم دینے والے کو بھول کر جیتے ہیں۔ اس کی پکار کا جواب نہیں دیتے۔ اس کی یاد کو اپنی زندگی نہیں بناتے۔
یہی نہیں ہم اس مہربان رب کی نافرمانی میں جیتے ہیں۔ اس کی عبادت میں غیراللہ کو شریک کرتے ہیں۔ اس کے بندوں پر ظلم کرتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کے بغیر ایک لمحہ جی نہیں سکتے۔ کوئی محرومی برداشت نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارا حوصلہ دیکھیے کہ ہم اس عجز کے باوجود ایسی غفلت اور سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جہنم کی ابدی قید ایسی ہی ناشکری اور سرکشی کا بدلہ ہے۔ رہے وہ لوگ جو اللہ کو یاد کر کے اور اس شکر گزاری میں جیتے ہیں تو ان کا بدلہ اسی آیت کے ساتھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
ان سے پوچھو کیا یہ (انجام) بہتر ہے یا وہ ابدی جنت جس کا وعدہ نیک لوگوں سے کیا جارہا ہے۔ وہ ان کی جزا اور ان کا ٹھکانہ ہوگی۔ اس میں ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ تیرے رب کا وعدہ ہے جسے پورا کرنا اس کی حتمی ذمہ داری ہے۔ (فرقان14-16:25)