ہماری دنیا ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ہماری پچھلی سڑک پر ایک گھر آباد ہوا۔ رواج کے مطابق گھر کے نئے مالکوں نے نہ صرف اپنا گھر نئے سرے سے آراستہ کیا بلکہ اس کے ساتھ انھوں نے ایک ایسا کام بھی کیا جو ہمارے معاشرے میں بالکل اجنبی ہے۔
ان کا گھر کونے کا تھا جہاں ان کی سڑک کو ایک دوسری سڑک عبور کر رہی تھی۔ دو سڑکوں کے اس سنگم پر ان کا کارنر کا گھر تھا جس کے تین سمت تین گھر اور تھے۔ انھوں نے نہ صرف اپنے گھر کے باہر قطعہ اراضی پر گھاس لگائی بلکہ تینوں گھروں کے باہر کے حصے کو صاف ستھرا کرکے نئی گھاس بھی لگوائی۔ اپنے گھر کے باہر نئے درخت لگانے کے ساتھ سڑک کو آنے جانے کے دو حصوں میں تقسیم کرنے والے آئی لینڈ پر بھی ناریل کے درخت لگوائے۔ ساتھ ہی سڑکوں کے سنگم پر بنے چھوٹے سے راؤنڈ اباؤٹ پر رنگین پتھر لگوا کر اسے ایک خوبصورت شکل دے دی۔ مزید یہ کہ راؤنڈ اباؤٹ پر لگے کھمبوں اور ناریل کے تنوں پر رنگ کروا کے ان کو بھی ایک خوبصورت شکل میں نمایاں کر دیا۔ میں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں تو انتہائی خوشگوار احساس ہوتا ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں لوگ اپنا گھر صاف کرکے کچرا گھر سے باہر پھینک دیتے یا کم از کم گھر کے اردگرد کے حسن و قبح سے بے نیاز رہتے ہیں، یہ رویہ نہ صرف قابل تعریف بلکہ قابل تقلید ہے۔ اس طرح کا کام کوئی بھی مڈل کلاس شخص کرسکتا ہے۔ مگر ہمارا مسئلہ پیسے کی نہیں بلکہ شعور کی کمی ہے۔ ہمارے اندر یہ شعور ہی پید انہیں کیا گیا کہ اپنی ذات، فیملی اور گھر سے باہر کی دنیا بھی میری دنیا ہے۔ میرا محلہ بھی میرا گھر ہے اور میرا شہر اور ملک بھی میرا گھر ہے۔ آہ کہ ہمارے اندر یہ احساس نہیں، اس لیے ہم صرف ”اپنی دنیا“ میں جیتے ہیں۔ جس روز ہم اپنی ذات سے بلند ہوکر باہر کی دنیا کو بھی اپنا سمجھنے لگے، ہماری قوم کی صورتحال بہت بہتر ہونے لگے گی۔