ہمارا تعلیمی نظام ۔ ابویحییٰ
قارئین کرام! آج میں آپ سے ایک ایسے اہم موضوع پر بات کرنا چاہتا ہوں جس پر ہماری قوم کے مستبقل کا انحصار ہے اور جس کی اہمیت کو نہ سمجھنے کی بنا پر ہمارا ماضی ناقابل رشک اور حال مختلف بحرانوں سے عبارت ہے۔ یہ مسئلہ ہمارے نظام تعلیم کا ہے۔ تاہم اس سے قبل کے میں پاکستان کے تعلیمی نظام کے مسائل پر کوئی بات کروں، گفتگو کے آغاز میں ہمیں مختصراً کچھ اصولی چیزیں سمجھنی ہوں گی۔ ان کو سمجھے بغیر ہمارے اندر اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنانے کا کوئی داعیہ پیدا ہوسکتا ہے اور نہ ہماری لیڈرشپ اور عوام اس کو اپنا مسئلہ بنائیں گے۔
انسانی تاریخ کے مختلف مراحل
ہم انسانی تاریخ کے چوتھے دور میں زندہ ہیں۔ انسانی تاریخ کا پہلا دور وہ ہے جس میں انسان شکار کر کے اور پھل وغیرہ چن کر اپنی معیشت کا بندوبست کیا کرتا تھا۔ اسے شکار کا دور بھی کہا جاسکتا ہے۔ دوسرا دور وہ ہے جسے زرعی دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ نام سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، اس دور میں انسانی معیشت کا انحصار زراعت پر تھا۔ ان دونوں ابتدائی ادوار کی اہم ترین مشترکہ خصوصیت یہ تھی کہ ان میں افراد، گروہوں اور معاشروں کی قوت و طاقت کا انحصار اصلاً عددی قوت اور جسمانی طاقت پر تھا۔
ان دونوں ادوار میں انسانوں نے حیوانات کو تو بڑی حد تک مسخر کرلیا تھا لیکن فطرت کی طاقتوں اور مادی قوتوں پر اس کو بہت کم قابو ملا تھا۔ علم میں ترقی اس وقت بھی ہوئی تھی، مگر یہ ترقی کچھ افراد اور محدود عرصے کے لیے کچھ اقوام تک محدود رہی اور اس علم کو تعلیم کی شکل میں اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کا باقاعدہ نظام وجود میں نہیں آیا۔ اس لیے جہاں کہیں بھی کوئی علمی ترقی ہوئی وہ اگلی نسلوں اور دیگر اقوام تک منتقل نہیں ہوسکی۔ اس دور میں نظام تعلیم اساتذہ کے حلقہ درس تک محدود تھا اور Academy اور Lyceum جیسے تعلیمی ادارے بھی افلاطون اور ارسطو کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ تھے اور ان کے بعد اپنی قدرو قیمت کھو بیٹھے۔ یہ مسلمانوں کا اعزاز ہے کہ انھوں نے تاریخ میں پہلی دفعہ علم کو تعلیم کے سانچے میں ڈھالا اور ایک تعلیمی عمل کے ذریعے سے علم کی آگے منتقلی کا اہتمام کیا۔ نظامیہ، مستنصریہ اور الازہر جیسے اعلیٰ تعلیم کے باقاعدہ، منظم اور سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ادارے انسانیت کو مسلمانوں ہی کی دین تھے۔ تاہم مسلمانوں کی عمومی توجہ زیادہ تر دینی تعلیم تک رہی۔ دنیوی علوم میں مسلمانوں نے جو کچھ ترقی کی، اسے نظام تعلیم کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ یہ زیادہ تر انفرادی طور پر مسلم سائنسدانوں تک محدود رہی۔
قرون وسطیٰ میں اہل یورپ کا واسطہ جب مسلمانوں سے پڑا تو انھوں نے نہ صرف نظام تعلیم مسلمانوں سے لیا بلکہ دنیوی سائنسی علم کو بھی نظام تعلیم کا حصہ بنا دیا۔ اس کے نتیجے میں کچھ ہی صدیوں میں انسانی تاریخ کے تیسرے دور یعنی صنعتی دور کا آغاز ہوا۔ اس دور میں انسان نے مادہ کوایک شکل سے دوسری شکل میں بدلنا سیکھ لیا اور فطرت کی طاقتوں کو پوری طرح مسخر کر لیا۔ جسمانی اور حیوانی طاقت کی جگہ مشینی طاقت نے لے لی اور نت نئی ایجادات نے زندگی کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ اس ہمہ گیر اور تیز رفتار ترقی کے پیچھے کارفرما اصل سبب یہی تھا کہ انسانی سماج نے علم کو تعلیم کی شکل میں اگلی نسلوں تک باقاعدہ منتقل کرنے کا نظام بنا لیا تھا۔ چنانچہ جس جس قوم نے اپنے نظام تعلیم کو اس پہلو سے دیکھا کہ یہ علم کی منتقلی کا ذریعہ ہے وہ تیزی کے ساتھ ترقی کر کے صنعتی دور کی بڑی طاقتوں میں شامل ہوگئی۔
بیسویں صدی کے آخری عشرے سے انسانی تاریخ کے چوتھے دور یعنی انفارمیشن ایج کا آغاز ہوا۔ یہ دراصل صنعتی دور ہی کی مزید ترقی یافتہ شکل ہے۔ مگر اس دور کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علم کی ترویج کے انتہائی تیز رفتار اور عالمی ذرائع وجود میں آگئے ہیں۔ جس کے بعد کمزور گروہوں اور اقوام کے لیے یہ موقع پیدا ہوگیا ہے کہ وہ علم میں اپنی کمی کو تیزی کے ساتھ پورا کر کے ترقی یافتہ اقوام کی صفوں میں شامل ہوسکتے ہیں۔ تاہم یہ موقع صرف انھی افراد، اقوام اور گروہوں کے لیے ہے جو اس بات کو سمجھتے ہوں کہ نظام تعلیم اصل میں اگلی نسلوں کو علم کی منتقلی کا سب سے منظم اور موثر ذریعہ ہے۔
پاکستان کا قومی تشخص
یہ وہ پہلی بنیاد ہے جس پر ہماری قوم کو سب سے بڑھ کر اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنانے اور اسے اپنا سب سے بڑا مسئلہ بنانے کی ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم اپنی ترجیحات اور بجٹ کا صرف دس فیصد حصہ تعلیم کے لیے وقف کر دیں تو دس سے پندرہ برس میں پاکستان کا شمار ترقی یافتہ اقوام میں ہونے لگے گا۔ تاہم نظام تعلیم ایک دوسرے پہلو سے پاکستان کے قومی تشخص کی تشکیل کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ آزادی کے تقریباً ستر برس بعد بھی ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔ کالا باغ ڈیم جیسی بنیادی قومی ضرورت ہو یا چھوٹے صوبوں جیسی اہم انتظامی ضرورت، ہم کہیں اتفاق رائے پیدا نہیں کر پاتے۔ یہاں بھی نظام تعلیم ہی ہمارے مسائل کو حل کرسکتا ہے۔ تاہم اس بات کو سمجھنے کے لیے بھی کچھ پس منظر جاننا ضروری ہے۔
پاکستان 1947 میں مذہب کے نام پر وجود میں آیا۔ یہ ایک ایسے زمانے میں ہوا جب کہ ہر طرف نیشنل اسٹیٹ کا دور دورہ ہوچکا تھا۔ یہ نیشنل اسٹیٹ جغرافیہ، تاریخ، زبان اور ثقافت وغیرہ کی بنیاد پر وجود میں آتی ہے۔ ان بنیادوں پر مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ ریاست کا حصول ممکن ہی نہیں تھا۔ چنانچہ بانیان پاکستان علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کا مقدمہ لڑا تو انھوں نے زبان، تہذہب، جغرافیہ اور تاریخ کے بجائے مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی ملت اسلامیہ کا کیس پیش کیا اور اسی بنیاد پر الگ وطن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
تاہم یہ ایک حقیقت تھی کہ مذہب کے نام پر وطن کا مطالبہ خاص ہندوستان کے پس منظر میں تھا۔ ذرائع مواصلات کی ترقی کے اس دور میں جب سفر کرنا بے حد آسان ہے، دنیا کے کسی ملک کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ اپنی سرحدیں لا محدود طور پر کھول دے۔ چنانچہ آزادی کے وقت پاکستان کی سرحدیں صرف ہندوستانی مسلمانوں کے لیے کھلیں اور تھوڑے عرصے کے بعد بند کر دی گئیں۔ اب نہ تو ہندوستان کا کوئی مسلمان اور نہ کسی اور علاقے ہی کا مسلمان پاکستان کی شہریت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔
دوسری طرف جب قیام پاکستان کے وقت صورتحال یہ تھی کہ نہ ملک کا جغرافیہ ایک تھا نہ تاریخ، نہ زبان ایک تھی اور نہ تہذیب و ثقافت۔ چنانچہ جب وطن آزاد ہوگیا اور اس ہندو اکثریت سے براہ راست کوئی تعلق نہ رہا تو وہ سارے تضادات ابھر کر سامنے آگئے جو ہندوؤں کے غلبے کے اندیشے سے دب گئے تھے۔ ایسے میں اس بات کی بے حد ضرورت تھی کہ اس نئی قوم کو ایک نیا قومی تشخص دینے کے لیے فوراً ایک نظام تعلیم دیا جاتا جو اس میں پائے جانے والے لسانی، جغرافیائی، ثقافتی اختلافات کو ایک نئی مشترکہ شناخت میں ڈھالتا۔ یوں لوگوں میں ایک قومی وژن، اجتماعی مفاد کا احساس، اپنی ذمہ داریوں کا شعور اور قومی اتحاد کا جذبہ پیدا ہوتا۔ دوسری طرف علم کی وہ روایت بھی آگے منتقل کرتا جو دور جدید میں قوموں کی ترقی کی ضامن ہوتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں علم و دانش کی کوئی ایسی روایت نہ تھی جو اس سنگین ترین مسئلے کو سمجھ سکی۔ رہی سیاسی قیادت تو وہ اس سے کہیں زیادہ آسان اور سطحی معاملات کو سمجھنے میں ناکام رہی، کجا یہ کہ وہ اتنی گہری بات کو سمجھ سکتے۔ اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ آزادی کے پچیس برس بعد ہی ملک کا آدھے سے زیادہ حصہ الگ ہوگیا۔ باقی آدھے کا بھی معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حوالوں سے جو حال ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
پاکستان کا موجودہ نظام تعلیم
نظام تعلیم سے متعلق یہ وہ حقیقت ہے جس کا ادراک آج کے دن تک کسی کو نہیں ہوسکا۔ یعنی کسی قوم کی تعمیر ہو یا اس کی ترقی، اس کا تمام تر انحصار نظام تعلیم پر ہے۔ قومی تشخص کی تشکیل ہو یا اس کی نئی نسلوں تک منتقلی، علم و اقدار کی روایت کا احیا ہو یا نئی نسلوں میں ان کی آبیاری؛ ان میں سے ہر چیز کا انحصار قومی نظام تعلیم پر ہوتا ہے۔ یہ بات نہ آج تک کسی سیاستدان کو سمجھ میں آسکی اور نہ کسی مفکر نے قومی نظام تعلیم کی اس اہمیت کو واضح کیا۔ آج بھی ہم تعلیم کو چھوڑ کرانتہائی سطحی چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس برس (15-2014) کے بجٹ میں مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد تعلیم کے لیے وقف ہے۔ تاہم اس رقم کو تو چھوڑیے تعلیم کے نام پر جو کچھ عملاً ہو رہا ہے اس کے لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ المیہ کا لفظ زیادہ موزوں ہے یا لطیفے کا۔ یہ المیہ یا لطیفہ جو بھی ہے، اس کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں کیونکہ یہ پہلے سے تقسیم شدہ قوم میں مزید نت نئی تقسیم کے بیج بو رہا ہے۔
کسی قوم کا قومی نظام تعلیم ابتدائی تعلیم کا نظام ہوتا ہے۔ یہی وہ زمانہ ہوتا ہے جس میں بچوں کو لکھنے پڑھنے اور حساب و کتاب، بنیادی سائنسی اور سماجی علوم کے ساتھ ساتھ اقدار، تہذیب روایات اور قومی امنگوں اور نظریات کا سبق سکھایا جاتا ہے۔ بچے نے ذاتی حیثیت ہی میں نہیں قوم کے ایک فرد کے طور پر بھی جو کچھ بننا ہوتا ہے وہ اسی عمر میں بن جاتا ہے۔ لیکن دیکھیے کہ اس دور کی تعلیم کے لیے بھی ہمارے ملک میں کتنے نظام تعلیم ہیں جو اپنے اپنے طریقے پر الگ الگ قسم کے لوگ پیدا کر رہے ہیں۔
’’چھوٹا‘‘ اسکول سسٹم
ابتدائی تعلیم کا سب سے پہلا نظام تعلیم ’’چھوٹا‘‘ اسکول سسٹم ہے۔ اس ’’چھوٹا‘‘ اسکول سسٹم میں بچوں کو اسکول ہی نہیں بھیجا جاتا۔ ان کے والدین اپنی غربت کی بنا پر بچوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم کر کے کسی دکان، ورکشاپ یا کارخانے میں ’’چھوٹے‘‘ کے طور پر بھیج دیتے ہیں جہاں صبح سے لے کر رات گئے تک لگاتار محنت کرنے کے علاوہ معصوم ذہن صرف غلیظ گالیاں، استاد کی ڈانٹ پھٹکار، بے ہودہ گفتگو اور کام میں ڈنڈی مارنے کے طریقے سیکھتا ہے۔ ضرورت کا کچھ حساب کتاب، کچھ گنتی اور برا بھلا نام لکھنے جیسی چیزیں بھی یہی استاد اسے سکھا دیتا ہے۔ بچہ کچھ کام اور ہنر بھی سیکھ لیتا ہے جو مستقبل میں فاقہ کشی سے اسے بچا لیتا ہے اور ماں باپ کو بھی کچھ نہ کچھ پیسے مل جاتے ہیں۔ معاشرے کو سستی، ماہر اور اکثر بے ایمان لیبر مل جاتی ہے۔ مگر قومی تعمیر اور ترقی میں اس ’’چھوٹا‘‘ اسکول سسٹم کا حصہ کچھ نہیں۔
تعلیم کا سرکاری نظام
اس کے بعد دوسرا نظام تعلیم سرکاری نظام تعلیم ہے جسے عام طور پر پیلے اسکولوں کا نظام کہا جاتا ہے۔ اس میں عام طور پر ملک کے غریب اور لوئر مڈل کلاس کے بچے پڑھتے ہیں۔ اس نظام کی کئی خصوصیات ہے۔ پہلی یہ کہ بارہا اس سسٹم کے اسکول اور اساتذہ گھوسٹ ہوتے ہیں۔ اس تعبیر کا مطلب یہ ہے کہ کاغذی سطح پر اسکول قائم ہوتا ہے، بجٹ جا رہا ہوتا ہے لیکن عملاً کوئی تعلیم نہیں ہوتی۔ جبکہ گھوسٹ اساتذہ کا مطلب یہ ہے کہ اساتذہ اسکول قائم ہوتا ہے، عمارت بھی ہوتی ہے، بچے بھی پڑھنے آتے ہیں لیکن ان کو پڑھانے والے اساتذہ، تنخواہ لینے کے علاوہ اسکول تشریف نہیں لاتے۔ یا آتے ہیں توکلاس میں نہیں جاتے اور جانا پڑے تو دن میں ایک آدھ گھنٹے کلاس میں جا کر تھوڑا بہت پڑھا لیتے ہیں۔
اس سسٹم کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کرپشن گورنمٹ کے دوسرے اداروں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ملازمت انھی کو ملتی ہے جو پیسے دے کر ملازمت خرید سکیں۔ ایسے لوگ اکثر نااہل ہوتے ہیں اور اچھی تنخواہ، مراعات اور سہولیات کے باوجود ان میں طلبا کو پڑھانے اور سکھانے کی کوئی صلاحیت ہوتی ہے نہ خواہش۔ جس طرح باقی سرکاری محکموں کے ملازمین وقت گزاری کرتے ہیں، یہاں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔ یہاں میرٹ کے بجائے رشوت کی بنیاد پر ترقیاں مل جاتی ہیں اور اس طرح ترقی پا کر ہیڈ ماسٹر اور ہیڈ مسٹریس بننے والے اسکول کے بجٹ کا بڑا حصہ خرد برد کر کے کھا جاتے ہیں۔ اسکول کا ڈسپلن اور طلبا کی بہتر تعلیم وتربیت بھی ان کا مسئلہ نہیں بن پاتی۔
اس سسٹم کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں بچے سیکھنے کے بجائے سوالوں کے جواب رٹ کے اگلے درجہ میں پہنچتے رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نہ وہ حقیقی معنوں میں کچھ سیکھ پاتے ہیں اور نہ ان کی سیکھنے کی صلاحیت بیدار ہوتی ہے۔ چنانچہ ایک اچھا نصاب ہونے کے باوجود یہ نظام تعلیم اچھے شہری پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
مزید یہ کہ یہ سسٹم باصلاحیت بچوں کے مقتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اول تو یہاں آتے ہی غریب بچے ہیں جن کے والدین جلد یا بدیر بچوں کو اسکول سے نکال کر ’’چھوٹا‘‘ اسکول سسٹم میں بھیج دیتے ہیں۔ وہ یہ نہ بھی کریں اور خود ساری مشقت جھیل کر بچوں کو پڑھائیں تب بھی مذکورہ بالا صورتحال میں کیسے کسی بچے کی کوئی صلاحیت پنپ سکتی ہے۔ نصیب سے کوئی باصلاحیت اور اچھا استاد یہاں آجائے تو اس سبجیکٹ کی حد تک بچہ کچھ سیکھ لیتا ہے، مگر مجموعی طور پر اس کے سیکھنے کا عمل اتنا کم ہوتا ہے کہ میٹرک انٹر کربھی لے تو اعلیٰ تعلیم کے مشکل مراحل سے نمٹنے کی کوئی صلاحیت اس میں نہیں ہوتی۔ جس کے بعد بغیر صلاحیت کے ملازمت کے امیدواروں کی ایک طویل قطار کے سوا معاشرے کو کچھ نہیں ملتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو ہر طرح کے حالات کے باجود اپنی جگہ بنالیتے ہیں، مگر یہ استثنائی مثالیں ہوتی ہیں۔
انگلش میڈیم سسٹم
اس کے بعد وہ نظام تعلیم آتا ہے جسے پرائیوٹ یا انگلش میڈیم سسٹم کہتے ہیں۔ یہ سسٹم خود تین طرح کے ذیلی سسٹم پر مشتمل ہے۔ ایک وہ انگریزی اسکول جو ہر گلی محلے میں کھلے ہوتے ہیں اور ان کی فیس اتنی ہوتی ہے کہ لوئر اور لوئر مڈل کلاس گھرانے برداشت کر لیتے ہیں۔ بہت سے مڈل کلاس گھرانے بھی اپنے بچوں کو ایسے ہی اسکولوں میں بھیجتے ہیں۔ ان اسکولوں کا نام انگریزی میں ہونے کے علاوہ معیار تعلیم بھی پیلے اسکولوں سے بہتر ہوتا ہے۔ نصاب میں انگریزی زبان اور کتب کا اہتمام ہوتا ہے تاہم اساتذہ زیادہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے اس لیے بچے انگریزی بولنا تو دور کی بات ہے لکھنے اور پڑھنے میں بھی ماہر نہیں ہوتے۔ یہاں کے پڑھے ہوئے بچے عام طور پر آٹھویں جماعت کے بعد سرکاری بورڈ ہی سے میٹرک اور انٹر کرتے ہیں۔
اس کے بعد وہ اسکول آتے ہیں جو ترقی کر کے بڑے بڑے اسکول سسٹم بنا لیتے ہیں اور ایک شہر کے کئی حصوں بلکہ کئی کئی شہروں میں ان کی برانچ ہوتی ہے۔ ان کی فیس اتنی ہوتی ہے کہ اپر مڈل کلاس اور کچھ مڈل کلاس والے بھی افورڈ کر لیتے ہیں۔ یہاں تعلیم اور اساتذہ کا معیار پہلے سے بہتر ہوتا ہے۔ عام طور پر اساتذہ گریجوٹ اور ماسٹرز ہونے کے علاوہ بچوں کی تعلیم کے لیے خصوصی طور پر تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ زیادہ بڑ ی کلاسوں میں یہ اپنے اپنے سبجیکٹ کے ماہر ہوتے ہیں۔ یہاں پڑھنے والے بچے انگریزی بولنے کی نہ سہی مگر پڑھنے اور لکھنے کی مکمل قابلیت پیدا کر لیتے ہیں۔ نیز اپنے سبجیکٹ پر بھی ان کو عبور ہو جاتا ہے۔ یہ بچے میٹرک اور انٹر سسٹم کے بجائے او لیول اور اے لیول کا امتحان دیتے ہیں۔
تیسری قسم کے اسکول دراصل ایلیٹ کلاس کے اسکول ہوتے ہیں جن کی فیس بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں ملک کی اشرافیہ کے بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان کا نصاب، طریقہ تعلیم، ماحول اور پس منظر ہر چیز باقی انگلش میڈیم سے جدا ہوتی ہے، گرچہ ان کی تعداد کم ہوتی ہے۔ یہاں سے فارغ ہونے والے بچے عام طور پر فرفر انگریزی بول سکتے ہیں اور بارہا اعلیٰ تعلیم کے لیے ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔
یہ تین طرح کے اسکول انگلش میڈیم ہی کہلاتے ہیں۔ مگر ان میں پڑھنے والے، ان کا طبقاتی اور مالی پس منظر، پڑھائی کا ماحول اور نصاب اور ان کی منزل اور مستقبل سب جدا ہوتے ہیں۔ خاص کر تیسری قسم کے انگلش اسکول کے بچوں کا باقیوں سے کوئی تعلق اور موازنہ نہیں ہوسکتا۔
دینی مدارس
یہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے عمومی تعلیم کا کوئی نظام نہیں بلکہ دین کے عالم تیار کرنے کا نظام ہے۔ یہ ایک اور قسم کا مکمل نظام تعلیم ہے جس کی اپنی دنیا اور اپنی تقسیم ہے۔ پہلے اس کی تقسیم پر بات کر لیتے ہیں۔ یہاں تین قسم کی بنیادی تقسیم پائی جاتی ہے۔ سنی اور شیعہ تقسیم، مقلد اور غیر مقلد کی تقسیم اور بریلوی اور دیوبندی تقسیم۔
سنی شیعہ کی تقسیم سے سب واقف ہیں۔ یہ صدیوں سے چلی آرہی ہے اور آج تک موجود ہے۔ اس میں اہل تشیع کے مختلف گروہ یعنی اثنا عشری، آغا خانی اور بوہری ایک طرف ہیں اور دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث دوسری طرف۔ دوسری تقسیم مقلدین اور غیر مقلدین کی ہے۔ غیرمقلدین سے مراد اہل حدیث حضرات ہیں جو کسی خاص امام کے فقہی مذہب کی تقلید کو درست نہیں سمجھتے جبکہ مقلدین میں دیوبندی اور بریلوی حضرات شامل ہیں جو حنفی فقہ کی پیروی کو لازمی سمجھتے ہیں۔ تیسری تقسیم میں ایک طرف بریلوی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پیر و مشائخ کے مزارات سے متعلق کچھ خاص تصورات میں دیوبندیوں اور اہل حدیث حضرات سے بہت الگ جگہ کھڑے ہیں۔ دیوبندی حضرات تصوف اور پیروں کے قائل ہیں جبکہ اہل حدیث کے ہاں اس تصور کی سخت مخالفت ہوتی ہے۔
ہر گروہ کے علماء اپنے مدارس کھولتے ہیں۔ ان مدارس میں زیادہ تر دیہاتی اور غریب پس منظر کے وہ بچے آتے ہیں جن کے والدین کے زیادہ بچے ہوتے ہیں۔ کچھ بچوں کو وہ مدرسے بھیج دیتے ہیں جہاں ان کے کھانے پینے اور رہائش کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ پڑھ لکھ کر وہ عالم بھی بن جاتے ہیں اور کسی مسجد یا مدرسے میں اپنے روزگار کا ذریعہ پیدا کر لیتے ہیں۔
اس سسٹم کی خصوصیات میں سب سے نمایاں یہی ہے کہ یہاں سے اسلام کے نہیں مخصوص فرقوں کے علماء نکلتے ہیں۔ یہاں کا بریلوی عالم بریلوی رہتا ہے، دیوبندی دیوبندی رہتا ہے، اہل حدیث اہل حدیث رہتا، شیعہ شیعہ اور سنی سنی رہتا ہے۔ یہ نہ ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں اور اکثر ایک دوسرے کے پیچھے نماز کو درست بھی نہیں سمجھتے۔ پیچھے جس طبقاتی تقسیم کا ذکر ہوا ہے یہ اس میں مزید فرقہ وارانہ تقسیم کو بڑھا دیتے ہیں۔
اس سسٹم کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں چھوٹے بچوں کو ابتداء ہی سے علما بننے کے عمل میں لگا دیا جاتا ہے۔ یوں یہاں کے فارغ التحصیل علماء بارہ برس کے اس عمومی نظام تعلیم کا حصہ نہیں ہوتے جس سے باقی قوم برا بھلا جیسے بھی ہو گزرتی ہے۔ اس طرح ایک طرف قوم کے اندر تقسیم در تقسیم کا عمل بڑھتا بلکہ وہ علماء جن کا کام معاشرے کی رہنمائی کرنا ہے، ان کے اور معاشرے کے درمیان ایک مستقل کمیونیکیشن گیپ پیدا ہوجاتا ہے۔ مزید یہ کہ ایک چھوٹے بچے کو نہ اپنے ذوق کا پتہ ہوتا ہے نہ اس کا کوئی رجحان سامنے آتا ہے، مگر اس سے قبل ہی یہ نظام اسے عالم دین بنا چکا ہوتا ہے۔ جبکہ قدرت ہر شخص کو عالم بننے کے لیے پیدا نہیں کرتی۔ کوئی تاجر ہوتا ہے، کوئی شاعر و ادیب ہوتا ہے، کوئی کھلاڑی ہوتا ہے اور کوئی سائنسدان اور انجینیر۔ ایک عام بچہ بارہ برس کی عمومی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک طرف معاشرے کی مین اسٹریم کا حصہ بن چکا ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ اپنے ذوق اور رجحان کے مطابق اپنی پسند کی فیلڈ کا انتخاب کرتا ہے۔ مثلاً وہ ڈاکٹری میں دلچسپی رکھتا ہے تو پھر ایم بی بی ایس کرتا ہے۔ یوں نہیں ہوتا کہ بچپن سے اس کے والدین اسے ڈاکٹر بنانے کے کالج میں بٹھا دیتے ہیں۔ کوئی بچوں کو اس طرح ڈاکٹر یا انجینیئر بنانے کے کالج کھولتا بھی نہیں۔ مگر مذہبی عالم بنانے کے لیے ہمارے معاشرے نے یہی اختیار کر رکھا ہے۔
اس کے نتیجے میں ایک طرف یہ بچے اپنے ذوق کے کام سے دور رہتے ہیں تو دوسری طرف ایک جدید دنیا میں جہاں اسلام کو طرح طرح کے چیلنجز درپیش ہیں دین کی نمائندگی کے لیے ایسے لوگ سامنے آتے ہیں جو طبعاً عالم اور محقق ہوتے ہی نہیں۔ بلکہ زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ ان کی زندگی کا اصل مقصد اپنے فرقے کی حقانیت ثابت کرنا ہوتا ہے۔ خیال رہے کہ یہاں بھی مستثنیات پائی جاتی ہیں۔ ایسے اہل علم ہیں جو فرقہ واریت اور انتہا پسندی کو پسند نہیں کرتے۔ وہ جدید دنیا اور علوم کو سمجھتے ہیں اور جدید لوگوں سے ان کی زبان اور محاورے میں گفتگو کر کے ان کے شبہات کا ازالہ کرسکتے ہیں، مگر کوئی نظام تعلیم اپنی مستثنیات کی بنیاد پر نہیں عمومی پروڈکٹ کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے۔ یہ پروڈکٹ ہر گلی کوچے میں موجود مسجد میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں مسجد کے باہر واضح طور پر فرقہ کا نام لکھا ہوتا ہے۔
مسئلے کو تسلیم کیجیے
یہ وہ پس منظر ہے جس میں اپنے قومی تشخص کی تلاش میں بھٹکتی پاکستانی قوم صوبائی، لسانی اور ثقافتی تقسیم کے ساتھ ساتھ زبردست قسم کی طبقاتی اور مذہبی تقسیم کا شکار بھی ہوچکی ہے۔ جس ملک میں پہلے پانچ قومیں تھیں جن میں سے ایک الگ ہوگئی اور چار رہ گئیں وہاں نظام تعلیم کی اہمیت کو نہ سمجھنے کی بنا پر اب ایک درجن قومیں اور گروہ بن چکے ہیں جن کے مفادات، نظریات اور خیالات سب ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ مزید یہ کہ دنیا میں جب ہر قوم تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور بنگلہ دیش جیسا ملک پاکستان سے آگے نکل گیا ہے، ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہم سے غلطی کہاں ہو رہی ہے۔ ہم سے غلطی اپنے نظام تعلیم کے معاملے میں ہو رہی ہے۔ اسی بنا پر ہم دنیا میں حقیقی ترقی نہیں کر پا رہے۔ اس سے بڑھ کر قومی سطح پر ہماری تقسیم کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہیں۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں پاکستان کے باشعور اذہان اور درد مند لوگوں کو اس مسئلے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے۔ یہ حل کی طرف پہلا قدم ہے۔ یعنی مسئلے کا شعور پیدا کیا جائے۔ مسئلے کو مسئلہ مانا جائے۔ اس مسئلے سے پیدا ہونے والے برے نتائج کو تسلیم کیا جائے۔ اس کے بعد ہی کسی حل کی بات اپنی کوئی جگہ بنا سکے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علمی اور فکری حلقوں میں اس پر بحث ہو۔ میڈیا اور سیاست دان کبھی حالات حاضرہ سے بلند نہیں ہوسکتے۔ جبکہ تعلیم حالات حاضرہ کا موضوع نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق پندرہ بیس سال کے مستقبل سے ہوتا ہے۔ یہ صلاحیت کرنٹ افیرز میں جینے والوں میں نہیں ہوتی کہ وہ اتنی دور کی سوچ سکیں۔ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج ہم نے اس مسئلے پر سوچنا شروع نہیں کیا تو اگلے پندرہ بیس برس ہمارے لیے بہت سنگین مسائل لے کر آئیں گے۔ وہ مسائل جن کو حل کرنا شاید کسی کے بس کی بات نہ ہوگی۔