غم و الم ایک نعمت بھی ۔ زینب عبداللہ
اس دنیا کی زندگی کے مختلف ادوار میں انسان کو ہزارہا قسم کے غموں کا سامنا ہوتا ہے۔ مگر ان تمام غم و الم کی ایک ہی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ یہ سارے غم اس فانی دنیا کی عارضی آسائشوں سے محرومی یا محرومی کے اندیشے سے پیدا ہوتے ہیں۔
ان تمام غموں کے پیش آنے پر انسانی ردعمل کو ہم دو بنیادی اقسام میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ ایک ردعمل وہ ہے جو صبر، حوصلے، برداشت اور غموں کے باوجود راہ حق پر قائم رہنے سے عبارت ہوتا ہے۔ یہ ردعمل رب تعالیٰ کی صحیح معرفت کے حصول کے لیے ایک ذریعے کا کام سر انجام دیتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے خالق، مالک اور اپنے رب سے قریب تر کرتا چلا جاتا ہے۔ اس رویے کے ساتھ ہر نیا غم اور محرومی ہمارے اور اللہ سبحان و تعالیٰ کے تعلق میں بے مثال خوبصورتی اور پختگی کا احساس تازہ کرتا چلا جاتا ہے اور ہمارے باطن کی پاکیزگی کا موجب بن جاتا ہے۔
دوسرا ردعمل وہ ہے جو شکوہ شکایت، ناشکری، بداخلاقی اور جھنجھلاہٹ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمارے غم اس دنیا کی محرومی کے سوا ہمیں کچھ نہیں دے پاتے۔ ہم دنیا میں تو ان کی وجہ سے دکھ اٹھاتے ہیں، مگران کے بدلے اخروی زندگی کے کسی اجر و ثواب اور رب تعالیٰ سے کسی ملاقات کا کوئی وعدہ نہیں۔
چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے تمام غموں میں اپنے ردعمل کا جائزہ لیں۔ اگر پہلے ایسا نہیں کیا تو اب یہ کوشش کرنی ہے کہ اب سے ان غموں میں پوشیدہ نعمت کو پہچان سکیں اور انھیں رب تعالیٰ سے قربت کے حصول اور باطن کی پاکیزگی کے حصول کا ذریعہ بنائیں۔ ایسی پاکیزگی جو انشاء اللہ ہمیشہ کی زندگی میں اللہ سبحان وتعالیٰ کی صحبت کے قابل بنا دے گی۔