گاڑی سے پردہ ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں میں نے ایک مضمون ”مردوں کی نگاہیں“ کے عنوان سے لکھا۔ اس مضمون میں مردوں کے نگاہ نیچی رکھنے کے حکم کی اہمیت بتائی گئی تھی۔ یہ مضمون ایک صاحب نے پڑھا اور اس سے مکمل اتفاق کیا۔ پھر انہوں نے ایک بڑی دلچسپ بات اپنے حوالے سے یہ بتائی کہ وہ زندگی میں ایک عرصے تک چمکتی دمکتی نئے ماڈل کی گاڑیوں سے نگاہوں کا ایسا ہی پردہ کرتے رہے ہیں۔
یہ اس وقت کا ذکر ہے جب بینکوں سے قسطوں پر ملنے والے قرضوں کی وجہ سے سڑکوں پر ہر جگہ نت نئے ماڈل کی گاڑیاں نظر آتی تھیں۔ انہیں اپنی فیملی کے لیے گاڑی کی ضرورت تھی، مگر اتنے وسائل نہیں تھے کہ وہ نئے ماڈل کی گاڑی خرید سکیں۔ مگر جب کبھی وہ سڑکوں پر ہر طرف چلتی نئے ماڈل کی گاڑیوں کو دیکھتے تو دل میں انہی کی خواہش پیدا ہوتی۔ اس مسئلے کا ایک حل انہوں نے یہ نکالا کے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً نئی گاڑیوں سے نگاہوں کا پردہ شروع کر دیا۔ جہاں کہیں کوئی نئی گاڑی نظر آتی وہ بالجبر اپنی نگاہیں ان کی طرف سے پھیر دیتے۔ پہلے وہ ان گاڑیوں کو غور سے دیکھتے تھے تو دل میں خواہش بڑھتی تھی، مگر اس عمل سے یہ خواہش کم ہو گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ بندہ مومن آخرت کے لیے جیتا ہے۔ اگر وہ اپنی ساری تگ و دو کا مقصد دنیا اور اس کی رنگینیوں کو بنالے تو وہ آخرت کی فلاح کے لیے سرمایہ کاری نہیں کرسکے گا۔ اس راہ میں اکثر لوگ گناہ اور حرام کا راستہ بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ وہ یہ نہ بھی کریں تب بھی خواہشیں اتنی ہوتی ہیں کہ ہر خواہش پوری کرنے کے بعد ایک نئی خواہش سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً وہ ساری زندگی خواہشات کے پیچھے بھاگتا رہے گا۔ اس کا تمام پیسہ اور وقت دنیا کی چیزوں کی خواہش اور پھر ان کے حصول کی جدوجہد میں گزر جائے گا۔ ایسے میں خواہشات کا راستہ روکنے کا یہی طریقہ ہے کہ بندہ مومن نگاہوں کا پردہ شروع کر دے۔ چاہے وہ گاڑی سے ہو یا بنگلے سے۔ یہی رویہ جنت کی ختم نہ ہونے والی نعمتیں حاصل کرنے کا درست طریقہ ہے۔