گاما جی ۔ شمائلہ عثمان
گاما فن پہلوانی کی تاریخ کی ایک بڑی شخصیت کا نام ہے۔ نام تو غلام محمد تھا مگر عرف میں گاما کہلائے 11 ستمبر 1910ء کو زبسکو جو اپنے وقت کا طاقتور ترین انسان سمجھا جاتا تھا انڈیا آیا اور پٹیالہ میں گاما جی سے بڑا معرکہ ہوا جس میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا اس معرکہ میں وائسرائے ہند بھی موجود تھے اس فتح کے بعد گاما کا لفظ عام بول چال میں طاقتور انسان کے لیے استعمال ہونے لگا یہی دونوں پہلوان ایک دفعہ پھر لندن میں آمنے سامنے ہوئے ایک دفعہ پھر گاما جی نے میدان مار لیا اور عالمگیر شہرت حاصل کی اس کے علاوہ بھی بے شمار بڑے معرکے ان سے وابسطہ ہیں۔
گاما جی جنہوں نے زبسکو کو کئی فٹ ہوا میں اچھال دیا تھا بڑھاپے میں ایک مکھی اڑانا بھی مشکل ہوگیا تھا فن پہلوانی سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان کی یومیہ خوراک دو سیر بادام، دس سیر دودھ اور پندرہ سیر گوشت کی یخنی تھی دو تین ہزار ڈنٹر روز پیلتے ہزاروں بیٹھکیں لگاتے لیکن بڑھاپے میں ایک پیالی دودھ حلق سے اتارنا مشکل ہوگیا تھا پھر آخرکار وقت پورا ہوگیا اور دنیا کا طاقتور ترین انسان موت سے شکست کھا گیا۔
ایسے بے شمار طاقتور، ذہین، خوبصورت اور مشہور لوگوں کی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ فرعون ہو یا نمرود آخرکار سب ہی موت کا نوالہ بنے۔ موت لمحہ بھر میں انسان کو اس کی دولت، طاقت، اثر و رسوخ سے جدا کر دیتی ہے اور جس طرح خالی ہاتھ انسان آیا تھا ویسے ہی دنیا چھوڑ کر خالی ہاتھ واپس جاتا ہے۔ لیکن درحقیقت وہ خالی ہاتھ آتا ضرور ہے لیکن جاتا اپنے نامہ اعمال کے ساتھ ہے اس کی کمائی ہوئی دولت چاہے دھن ہو محبت ہو شہرت ہو عزت ہو اولاد ہو علم ہو یا عمل سب کے استعمال کے بارے میں اللہ کی بارگاہ میں حساب دینا ہے اور جس کا نتیجہ داہنے ہاتھ میں آئے گا وہ اس ابدی دنیا کا گاما ہوگا۔