ایمانیات : فرقہ واریت کے خاتمے کا راستہ ۔ ابویحییٰ
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پانچ بنیادی ایمانیات پر قائم ہے: توحید، آخرت، نبوت، فرشتوں اور کتابوں پر ایمان۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”اور جو اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے رسولوں اور قیامت کے دن (اُس کے حضور میں پیشی) کا کفر کریں، وہ بہت دور کی گمراہی میں جا پڑے ہیں“،(النساء136:4)
یہی دین ِاسلام کے وہ مطالبات ہیں جو ایمان کے ضمن میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھے ہیں اور جیسا کہ اس آیت میں بیان ہوا، ان کا کفر کرنا دور کی گمراہی ہے۔ قرآن مجید نے دیگر مقامات پر انھی پانچ ایمانیات کو بعینہٖ بیان کیا ہے یا موقع محل کے لحاظ سے ان میں سے کچھ کو لے لیا ہے۔ مگر ان میں کوئی اضافہ ہرگز نہیں کیا اور نہ کسی اور کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قرآن مجید کے بیان کردہ ان پانچ بنیادی ایمانیات میں اضافہ کرے۔
البتہ جو چیز قرآن مجید میں ہوئی اور بعض روایات میں بھی، وہ یہ تھی کہ ان ایمانیات کی کچھ تفصیل کی گئی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں نبوت کے ضمن میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضور خاتم النبیین ہیں،(الاحزاب40:33) یا نبوت کے باب میں حضور یا آپ سے پہلے ہونے والی وحی پر ہی ایمان مطلوب ہے،(النساء136:4)۔ اس طرح کی تمام تفصیلات نبوت پر ایمان کا جز ہیں نہ کہ کوئی چھٹی یا ساتویں ایمانیات۔
اسی طرح بعض روایات میں ان پانچ ایمانیات کے ساتھ اچھی بری تقدیر کے اللہ کی طرف سے ہونے پر ایمان کا بھی ذکر ہے،(تومن بالقدر خیرہ وشرہ من اللہ تعالیٰ، متفق علیہ)۔ یہ بھی قرآن مجیدمیں مذکور ایمان باللہ ہی کی ایک فرع کا بیان ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کائنات کو بنا کر فارغ نہیں ہوگیا ہے، وہ ایک اندازے (تقدیر) کے مطابق اس کا نظام چلا رہا ہے۔ اس تقدیر میں بعض چیزیں انسانوں کے لحاظ سے اچھی یا خیر کا باعث ہوتی ہیں جیسے مال، اولاد اور دیگر نعمتیں اور بعض چیزیں مادی طور پر بری یاشر سمجھی جاتی ہیں جیسے موت، بیماری وغیرہ۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نے کوئی خیر مانگا ہے تو وہ اپنی طرف سے اسباب مہیا کرنے کے بعد اس خیر کو خدا سے مانگے اور شر سے بچنا ہے تو اسی سے فریاد کرے۔
خدا کی مقررہ تقدیر اور سارے نفع و ضرر کا خدا کے ہاتھ میں ہونا اصلاً قرآن مجید میں بیان ہواہے۔ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طے کردہ اس تقدیر اور اندازے کو بھی بیان کرتا ہے جو سرتاسر علم و حکمت پر مبنی ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ اسی کے ہاتھ میں سارا نفع و ضرر ہے۔ اس حقیقت کو نہ مانا جائے تو شرک کا وہ دروازہ کھل جاتا ہے جس میں ہر دور کی مشرک اقوام مبتلا رہی ہیں۔ ان اقوام میں یہ تصورات پائے جاتے تھے کہ خدا کے کچھ شریک ہیں جن کے ہاتھ میں خیر و شر اور نفع و ضرر ہے۔ لوگ ان سے مرادیں مانگتے اور ان کے حضور دعا و فریاد کرتے تھے۔ ان کی عبادت کی جاتی اور اپنی حاجت براری کے لیے ان کے حضور نذریں پیش کی جاتی تھیں۔ قرآن مجید نے نہ صرف یہ واضح کیا کہ یہ اللہ ہی کی ہستی ہے جس کے ہاتھ میں سارا اختیار ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی بہت دہرایا ہے کہ غیر اللہ کے ہاتھ میں کچھ نہیں۔
غیر اللہ کے ہاتھ میں خیر و شر کا یہ باطل تصور قدیم امتوں کو بھی شرک میں مبتلا کرتا رہا اور خود امت مسلمہ کی گمراہی کا سبب بھی بنا۔ اسی لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اہمیت کو نمایاں کرنے کے لیے ایمان باللہ کی ایک فرع کے طور پر اسے الگ سے بھی بیان کیا۔ بالکل ایسے ہی اس روایت میں آخرت پر ایمان کی یہ فرع بھی بیان کی گئی ہے کہ اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں۔ یہ کسی ساتویں عقیدے کا بیان نہیں بلکہ آخرت پر ایمان کی ایک فرع ہے جو قرآن میں پہلے ہی بیان ہوچکی ہے۔
یہ قرآن مجید سے جدا کوئی اجنبی اسلوب نہیں۔ سورہ بقرہ آیت 285 میں ایمانیات کا ذکر کرتے ہوئے یہ بات بیچ میں بیان کر دی گئی کہ ایمان والے نبیوں میں سے کسی کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے۔ تمام نبیوں پر یکساں ایمان کی یہ بات خاص طور پر یہود کے پس منظر میں کہی گئی تھی جو بعض نبیوں کا کفر کرتے تھے۔ اس لیے یہ بات ایمان بالرسالت کا ایک جز ہے نہ کہ کسی اضافی عقیدے کا بیان۔
چنانچہ روایات میں نہ قرآن مجید کے بیان کردہ پانچ ایمانیات سے بڑھ کر کچھ بیان ہوا ہے، نہ قرآن مجید کے طریقے یعنی ایمان کی کسی اہم فرع کی خصوصی وضاحت سے ہٹ کر کچھ معاملہ ہوا ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس واضح حقیقت کو سمجھنے کے بجائے ابتدائی صدیوں میں پیدا ہونے والے کچھ کلامی مباحث کی بنا پر تقدیر پر ایمان کو چھٹا عقیدہ سمجھ لیا گیا جبکہ یہ ایمان باللہ کی ایک فرع کا بیان تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد میں آنے والوں نے ”اجہتاد“ کرکے قرآن مجید کے بیان کردہ پانچ ایمانیات میں ختم نہ ہونے والے اضافے کرنا شروع کر دیے۔ اسی سے تمام فرقہ واریت کا دروازہ کھل گیا کیونکہ یہ عقائد کا فرق ہے جو الگ فرقے کو جنم دیتا ہے۔ اسی سے مسلمانوں کو کافر قرار دینے کی مہم کا آغاز ہوا۔ کیونکہ کچھ لوگ جب پانچ عقائد سے بڑھ کر اپنے اضافی عقائد مانیں گے اور کچھ دوسرے لوگ کچھ دوسری چیزوں کو ان پانچ ایمانیات سے ہٹ کر مانیں گے تو عقائد کا یہ فرق لازماً کفر و ایمان اور فرقہ واریت کا مسئلہ پیدا کر دے گا۔
لیکن اگر اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لی جائے اور صرف پانچ قرآنی ایمانیات تک خود کو محدود کرلیا جائے تو کچھ اور ہو نہ ہو فرقہ واریت اور تکفیر کی آگ ضرور ٹھنڈی پڑ جائے گی۔