فضیلت، محبت، اطاعت ۔ ابویحییٰ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی مسلمانوں کے ہاں جس پہلو سے سب سے زیادہ قابل ذکر رہتی ہے وہ آپ کی فضیلت اور محبت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ایک ناقابل انکار حقیقت اور آپ کی محبت ایمان کا ناگزیر حصہ ہے۔ مگر ایک سوچنے والے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز اتنی زیادہ مسلمہ ہے، جس کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف ڈھونڈنا ایک مشکل کام ہے، وہ مسلمانوں کے ہاں اس قدر زیر بحث کیوں رہتی تھی۔ اس سوال کا سادہ ترین جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا بیان مسلمانوں کے فخر کے جذبات کی تسکین کرتا ہے اور آپ کی محبت کا دعویٰ اپنی نجات پر وہ اعتماد پیدا کرتا ہے جس کے بعد اخلاق کی مشکل گھاٹی پر چڑھنا ضروری نہیں رہتا۔
اس کے برعکس مسلمانوں میں وہ چیزیں سب سے کم زیر بحث ہیں جو آپ کی اصل دعوت تھیں اور جن پر مسلمانوں کی نجات موقوف ہے۔ یعنی ایمان اور عمل صالح۔ ایمان کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو اپنی زندگی کا مرکزی خیال اور اس کے حضور پیشی کے موقع پر جنت کی فلاح کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لے۔ عمل صالح کا مطلب ہے کہ اپنی زندگی کو ان اخلاقی تقاضوں کے مطابق ڈھالنا جو خالق و مخلوق کے حوالے سے ہم پر عائد کیے گئے ہیں۔ پھر یہ سارے اسی طرح کرنے ہیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا اور چاہا۔ آپ سے ہٹ کر کوئی راستہ کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔
یہ ظاہر ہے ایک مشکل کام ہے۔ یہ نفس و شیطان کے خلاف لڑنا ہے۔ یہ خواہش اور جذبات سے جنگ کے مترادف ہے۔ اس لیے آج کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک دوسرا راستہ پسند کر لیا ہے۔ مگر وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایمان و اخلاق کی لائی ہوئی آپ کی اصل دعوت کے اتباع اور اطاعت کے سوا نجات کا کوئی راستہ نہیں۔