اے خدا ترے بنا ۔ پروفیسر محمد عقیل
اے میرے رب! اے میرے خدا! تیرے بنا زندگی موت سے بھی بد تر ہے۔ تیرے بنا چاند کی روشنی تیرگی، سورج کی کرنیں بے نور، تاروں کی چھاؤں معدوم، فلک کی وسعت ایک تنگ گلی اور نیلگوں آسمان ایک سیاہ چادر ہے۔ تیرے بغیر پرندوں کی چہچہاہٹ ایک بے ہنگم شور، پھولوں کی مہک بے کیف بو، قوس قزح لایعنی لکیریں، باد نسیم صحرا کے تھپیڑے، پتوں کی سرسراہٹ بے معنی آواز، ساحل کی موجیں بے سبب یلغار اور بارش کے قطرے تپتے ہوئے سنگریزے ہیں۔
تیرے بغیر زیست بس سانسوں کا آنا جانا، دل محض گوشت کا لوتھڑا، عقل عیاری کی آماجگاہ، نگاہیں ابلیس کی پناہ گاہ اور بدن اک زندہ لاش ہے۔
تیرے بنا ہر حسن غلاظتوں کا ڈھیر، ہر رشتہ لایعنی تعلق، ہر انسان شیطان کا سایہ، اور ہر محفل اجڑا ہوا دیار ہے۔
تیرے بنا یہ نمازیں ریاکاری، یہ زکوٰۃ سانپوں کا ڈنک، یہ حج فقط اک یاترا اور یہ روزے احمقوں کافاقہ ہیں۔ تیرے بنا تبلیغ محض ڈھونگ، تقریر نقلی پھولوں کا گلدستہ، حیا فقط تکلف، مذہبی پیشوائیت پنڈت کی دوکان، جہاد اک فساد، اذان ایک رسمی اعلان، جمعہ ایک لایعنی اجتماع اور عید ابلیس کی بزم ہے۔
تیرے بنا تفریح ایک بے ہودہ عمل، غناء ایک بے ہنگم شور اور سماج ایک جم غفیر ہے۔ تیرے بغیر کمانا ایک حرام عمل، لین دین استحصال کا ذریعہ، فلاح کا کام محض دکھاوا، تعلیم جہل کی بنیاد، کھانا پینا جانوروں کا فعل اور جنسی تعلق نری حیوانیت ہے۔
میں یہ چاہتا ہوں کہ تو ہو اور مرے من میں تجھ سا کوئی نہ ہو۔ تو نہیں توکچھ بھی نہیں۔ تو ہے تو سب کچھ ہے۔ تو ہے توگلوں میں رنگ ہے، باد نوبہار ہے۔ ترنم ہزار ہے، بہار پر بہار ہے، ہوا بھی خوشگوار ہے۔ تو ہے تو نماز یہ معراج ہے، زکوٰۃ بہت پاک ہے، صوم اک نکھار ہے، حج اک خمار ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تو میرے شب و روز میں آ، میرے تکلم میں سما، میری سماعتوں کو جگا، میری نگاہوں میں بس جا، میری نیندوں کو سجا، میرے سجدوں کو بسا، مجھ کو راتوں میں اٹھا، رگ جاں سے بھی قریب آ اور پھر دور نہ جا۔