ایندھن اور اختیار ۔ فرح رضوان
اف خدایا! فرینڈ کی وال پر ویڈیو تھی کہ کسی بندے کو آن واحد میں فون کی بیٹری سے آگ لگ گئی اور اس حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ کہ لوگ آگ بجھانے کے بجائے ویڈیو بناتے رہے، جبکہ فوری طور پر میرا ذہن آئے دن خواتین کی اس بڑھتی ہوئی شکایت کی طرف چلا گیا جو وہ شدید اذیت کے ساتھ کرتی ہیں کہ اللہ کوئی وظیفہ بتائیں کہ ’’وہ‘‘ انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے باز آجائیں، اور کاش اس ویڈیو کو دیکھے کوئی جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو اور جان لے کہ ہمیں کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا کیونکہ یہ آگ تو اس آگ کے سامنے کچھ نہیں جو وہ ہر لمحہ اپنے اپنے فون میں ساتھ لیے پھرتے ہیں، ایک قرض کی صورت، جو سچی پکی توبہ کے طور پر وقت رہتے ادا نہ کیا گیا تو ہمیشہ ہمیشہ چکاتے رہنا ہو گا۔ تب جلنے سے نہ تو موت واقع ہوگی نہ ہی کوئی مرہم دستیاب ہوگا۔ ۔ ۔ اس دوران ویڈیو بھی چلتی رہی حتی کہ فقط چند لمحات میں وہ لڑکا جل کر سیاہ ہوگیا اور اس سے آگے مجھے ہوش آگیا کہ اس کلپ کو سٹاپ بھی کیا جاسکتا ہے۔
وہ تو ایک کلک سے بند ہوگیا لیکن ذہن میں پچھلے ہفتے کی قرآن کلاس کے سبق کے اوراق کھل گئے۔ اور محض تین چار الفاظ کے معنی نے دل کو لرزا کر رکھ دیا… (وقود: ہر وہ ایندھن ہے جو شعلہ پیدا کر کے جلے، خواہ وہ لکڑی ہو یا پتھر یا انسان، بعض اوقات آگ کی شدت اس انتہا کو پہنچ جاتی ہے کہ اس پر پانی ڈالا جائے تو وہ بھی آگ کو بجھانے کے بجائے مزید بھڑکانے کا سبب بن جاتا ہے تو اس صورت میں پانی بھی وقود میں شامل ہوگا۔ کوئی بھی ایندھن کی قسم ہو جب وہ جل رہا ہو تو اس وقت وہ وقود کہلائے گا)۔
سبحان اللہ کیا تخلیق ہے رب تعالیٰ کی کہ انسان، جو کہ ستر فیصد پانی پر مشتمل مخلوق ہے جس کی اہم ترین ضرورت خون اور اس کی درست فراہمی اور روانی ہے، وہی خون کم و بیش ستر فی صد combustion کی صلاحیت رکھتا ہے، یعنی انسانی جسم میں ہر دم دوڑ تا ایندھن۔
ایندھن کا کام ہی جلنا ہے نصیب ہی یہی ہے اور اگر اس کا تعلق انسان سے ہے تو اسے، بس اختیار صرف اور صرف اتنا کہ یہ طے کر لے کہ خالق کی رضا کے لیے، دیے کی طرح جل کر اس کی مخلوق کے لیے روشنی کا بندوبست کرنا ہے یا قرآن و حکمت کی روشنی سے فرار اختیار کر کے دوسری طرح کا ایندھن بننا ہے؟