علم، احتساب اور اعتراف ۔ ابویحییٰ
ایمان اس روئے زمین پر جنم لینے والا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ اس کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ مگر کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ ایمان دراصل اعتراف کا نام ہے۔ یعنی جب سچائی سامنے آجائے تو اسے مان لینا۔ چاہے وہ اپنی خواہشات کے خلاف ہو یا جذبات کے۔
اپنے جذبات کے خلاف کسی حقیقت کا اعتراف کرنا اس دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو ذاتی احتساب کی نفسیات میں جی رہا ہے۔ جبکہ انسانوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ بیشتر لوگ دوسروں کے احتساب کے اصول پر زندگی گزارتے ہیں۔ دوسروں کے احتساب میں جینے والا اپنی پہاڑ جیسی غلطیاں بھی نہیں دیکھ پاتا البتہ دوسروں کی وہ غلطی بھی دریافت کرلیتا ہے جو موجود ہی نہیں ہوتی۔
ذاتی احتساب کی نفسیات انسان کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ بولنے سے پہلے تولے اور بولنے کے بعد دوبارہ سوچے کہ کیا کہا ہے۔ اس کے باجود بھی غلطی ہوجائے تو توجہ دلانے پر فوراً اپنی اصلاح کرتا ہے۔ وہ تنقید کو اصلاح کا عمل سمجھ کر خوشدلی سے برداشت کرتا ہے۔
احتساب کے بعد اعتراف کی طرف لے جانے والی دوسری چیز علم کا حصول اور چیزوں کو درست زاویے سے دیکھنے کی صلاحیت ہے۔ بعض اوقات انسان جہالت کی وجہ سے بہت سی سچائیوں کو نہیں مانتا۔ بعض اوقات انسان کو کسی بات کا علم ہوتا ہے، مگر جس زاویے سے اس بات کو دیکھ رہا ہوتا ہے وہی غلط ہوتا ہے۔ لہٰذا جب کسی فن کا ماہر یا صاحب علم تصحیح کر دے تو انسان کو اپنی غلطی پر اڑے رہنے کے بجائے اعتراف کرلینا چاہیے۔
اللہ کی جنت اعتراف پر مبنی نفسیات کا بدلہ ہے۔ یہ جس شخص میں موجود ہو انانیت اور تعصبات دونوں سے بلند ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد خدا کی رحمت اس کا احاطہ کر لیتی ہے۔