ترجمہ: محمود مرزا
ہم اکثر و بیشتر اپنی ذات میں ہی مشغول رہتے ہیں۔ ہماری خواہشات، ہمارے خوف، ہمارے آئیڈیلز، ہماری پریشانیاں، ہمارا آرام و سکون، ہمارے اہل و عیال اور ایک نہ ختم ہونے والی طویل فہرست۔ اگرچہ اپنی ذات کے بارے میں سوچنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اصل تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہم اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر دیکھنے کی زحمت ہی نہ کریں۔ یعنی اگر ہم اس قابل بھی نہیں ہیں کہ کسی کے درد کو دیکھ سکیں تو یہ سراسر خود غرضی ہے اور ایک قابلِ تشویش بات بھی۔
ایسی بہت سی صورتیں ہوتی ہیں جو ہم سے فوری توجہ کا تقاضہ کرتی ہیں جیسے ہمارے والدین کا رنجیدہ ہونا، کسی ملازم کو کوئی پریشانی لاحق ہونا، کسی دوست کا سخت تکلیف میں ہونا، کسی پڑوسی کا دکھی ہونا، عزیز و اقارب میں سے کسی کا غمزدہ ہونا، اپنے پالتو جانور کا تکلیف میں ہونا یا پھر کسی پودے کو پانی کی ضرورت ہونا۔ ان میں سے یا ان جیسی کوئی بھی صورت ہو ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ باخبر رہیں اور مدد کے لیے ہر گھڑی تیار رہیں۔ ہمیں اس انداز میں اپنی تربیت کرنی چاہیے کہ ہمارے دماغ کا اینٹینا گرد و پیش میں موجود رنج و الم کے ہر سگنل کو باآسانی کیچ کر لے اور ہماری آنکھیں اور کان ہمارے ماحول میں پائے جانے والے ہر دکھ اور ہر پریشانی کا فوراً احاطہ کر لیں۔
اگر اس ضمن میں ہم نے متنبہ رہنا سیکھ لیا ہے تو پھر اس سے اگلا مرحلہ لازمی طور پر عملی اقدام کا ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمیں چاہیے کہ اس طرح کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہم ہر ممکن کوشش کریں اور لوگوں کی مدد کریں چاہے وہ مدد معاشی ہو، جسمانی ہو یا پھر جذباتی۔ البتہ اگر ان میں سی کچھ بھی ممکن نہ ہو تو تب بھی کچھ ایسے مثبت اقدامات ہیں جو ہم لے سکتے ہیں ۔ وہ اقدامات درج ذیل ہیں۔
﴾ تکلیف زدہ شخص کا مسئلہ سنیے۔ اس سے کسی حد تک اس کی تکلیف کم ہو گی۔
﴾ اس مسئلہ کے بارے میں دوسروں کو آگاہ کیجیے۔ ہو سکتا ہے وہ اس سلسلے میں کچھ مددگار ثابت ہوں۔
﴾ اگر وہ اس سلسلے میں کچھ نہ کرپائیں تو پھر ان سے بھی گزارش کیجیے کہ وہ بھی اپنے اپنے دائرے میں اس بات کو دوسرے لوگوں کے گوش گزار کر دیں۔
﴾ اپنے پروردگار سے دل کی گہرائیوں سے گڑگڑا کر التجا کیجیے۔ کہتے ہیں کہ دعاؤں میں وہ اثر ہوتا ہے کہ وہ پہاڑ کو بھی ہلا دیتی ہیں۔