دولت کی نفسیات، جنت کی نفسیات ۔ ابویحییٰ
یہود دنیا بھر میں دولت کمانے کا ایک استعارہ ہیں۔ ان کے بخل اور دولت کمانے کو مقصد زندگی بنا لینے کے حوالے سے متعدد لطیفے اور واقعات گردش میں رہتے ہیں۔ اسی پس منظر میں ہمارے ہاں کی بعض کمیونٹیز بہت مشہور ہیں اور عملاً مشاہدہ بھی یہی ہے کہ وہ پیسہ کمانے میں دوسرے طبقات سے بہت آگے رہتے ہیں۔
زیادہ پیسہ کمانے کا یہ عمل کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ یہ ایک نفسیات ہے جو خاندان اور برادری کے زیر اثر پیدا ہوجاتی ہے۔ اس میں انسان ہر چیز اور ہر موقع کو اسی پہلو سے دیکھتا ہے۔ مثلاً عام لوگوں کے برعکس جو دس لاکھ جمع ہونے پر دس لاکھ کی گاڑی خریدتے ہیں، اس نفسیات کے لوگ دس لاکھ جمع ہونے پر خود موٹرسائیکل میں گھومتے اور اس رقم کو کسی کاروبار یا انویسٹمنٹ میں لگا دیتے ہیں۔ چنانچہ گاڑی خریدنے والوں کے دس لاکھ دس سال بعد ایک لاکھ رہ جاتے ہیں اور انویسٹ یا کاروبار کرنے والوں کے دس لاکھ دس کروڑ بن جاتے ہیں۔ انفرادی طور پر کسی شخص کے پاس دولت کا کم یا زیادہ ہونا قسمت پر منحصر ہوتا ہے، لیکن عمومی طور پر اسی رویے کی بنا پر یہ کمیونٹیز عام لوگوں سے زیادہ پیسے والی ہوتی ہیں۔
اس طرح کی کمیونٹیز کو ہم ’’دولت کی نفسیات‘‘ میں جینے والی کمیونٹیز کہہ سکتے ہیں۔ ان کا لائف اسٹائل اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک کروڑ کی گاڑی خرید سکتے ہیں تو دس لاکھ کی خریدتے ہیں۔ دس کروڑ کے گھر میں رہ سکتے ہیں تو ایک کروڑ کے گھر میں رہتے ہیں۔ باقی تمام پیسہ کاروبار اور انویسٹمنٹ میں لگا رہتا ہے۔ یوں یہ لوگ زیادہ سے زیادہ دولت مند اور باقی لوگ بس عام سطح پر زندگی گزار کر رخصت ہوجاتے ہیں۔
جنت کی آنے والی دنیا کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔ وہاں پر کچھ کمیونٹیز ہوں گی جو اپنے مقام، مرتبے، دولت، اسٹیٹس میں باقی تمام اہل جنت کے لیے باعث رشک ہوں گی۔ ان کے گھر باقی سب لوگوں سے زیادہ بڑے اور خوبصورت ہوں گے۔ ان کی سواریاں باقی سب لوگوں سے زیادہ جدید اور شاندار ہوں گی۔ ان کے پاس جنت کے ہر اعلیٰ سے اعلیٰ کلب کی ممبر شپ ہوگی۔ جنت کے ہر پرفضا مقام پر ان کی رہائش گاہیں ہوں گی۔ جنت کے ہر ریسٹورنٹ کے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے۔ اور سب سے بڑھ کر انبیا کی محفل اور خدا کی مجلس میں سب سے آگے ان کو جگہ ملے گی۔
یہ وہ لوگ ہوں گے جو موجودہ دنیا میں ’’دولت کی نفسیات‘‘ کے بجائے ’’جنت کی نفسیات‘‘ میں جیے تھے۔ انھوں نے دین کے سارے احکام کی مقدور بھر پیروی کی تھی۔ انھوں نے ایمان و اخلاق کی قرآنی دعوت اور نبوی ماڈل کو اپنی زندگی بنا لیا تھا۔ یہ اپنے وقت، صلاحیت اور پیسے کو آخرت میں انویسٹ کرتے اور خدا سے کاروبار کرتے رہے۔
ایسا نہیں تھا یہ لوگ ترک دنیا کر کے جیے تھے۔ انھوں نے شادیاں کیں۔ اولادیں پیدا کیں۔ گھر بھی بنائے۔ سواریاں بھی رکھیں۔ مگر ان میں سے کسی چیز کو جنت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔ کیونکہ ان کا مقصود و مطلوب جنت کے اعلیٰ درجات تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ خدا کے ساتھ جو کاروبار اور آخرت کی دنیا میں جو انویسٹمنٹ وہ کر رہے ہیں، اس کے ڈوبنے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ جانتے تھے کہ اس کاروبار میں نقصان کا کوئی اندیشہ ہی نہیں اور نفع کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گنا بلکہ بہت سے معاملات میں بے حد و حساب ہے۔ چنانچہ انھوں نے دنیا کو ضرورت کی سطح پر رکھا اور باقی ہر اضافی پیسہ، وقت، توانائی اور جذبے کا رخ آخرت کی طرف موڑ دیا۔
اہل جنت کے یہی وہ لوگ ہوں گے جو باقی اہل جنت کے لیے باعث رشک ہوں گے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سب سے بڑھ کر خدا سے قریب ہوں گے۔