دو انسان ۔ مولانا وحید الدین خان
مسیلمہ کذاب (م۲۱ھ) نجد کے علاقے یمامہ کا رہنے والا تھا۔ اس مقام کو اب جُبَیلہ کہا جاتا ہے۔ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا، اسی لیے وہ کذاب (جھوٹا) کہا جاتا ہے۔ عربی میں مثل ہے:
اکذب من مسیلمۃ۔ یعنی مسیلمہ سے بھی زیادہ جھوٹا۔
روایات میں آتا ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے یمامہ جا کر مسیلمہ سے ملاقات کی۔ مسیلمہ نے پوچھا کہ تمھارے صاحب پر حال میں اترنے والی وحی کیا ہے۔ عمرو بن العاص نے کہا کہ آپ پر ایک سورہ اتری ہے جو نہایت مختصر اور نہایت بلیغ ہے۔ اس نے پوچھا کہ وہ کیا ہے۔ عمرو بن العاص نے اس کو سورہ العصر سنائی:
والعصر۔ ان الانسان لفی خسر۔ الا الذین آمنوا وعملوا الصالحات وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر۔
اس کو سن کر مسیلمہ کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد بولا کہ میرے اوپر بھی اسی قسم کا کلام اترا ہے۔ عمرو بن العاص نے پوچھا کہ وہ کیا ہے۔ مسیلمہ نے حسب ذیل الفاظ سنائے:
یا وبر یا وبر وانما انت اذ نان وصدر وسائرک حفر و نقر۔
اس کے بعد اس نے پوچھا کہ اے عمرو، تمھارا کیا خیال ہے۔ عمرو بن العاص نے جواب دیا: خدا کی قسم، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تم کو جھوٹا سمجھتا ہوں (تفسیر ابن کثیر۴/۷۴۵) مسیلمہ کو معلوم تھا کہ اس کے یہ الفاظ بالکل لغو ہیں۔ مگر اس نے نعوذ باللہ قرآن کا مذاق اڑانے کے لیے ان کو موزوں کر کے سنایا۔
اب دوسری مثال لیجیے۔ یہ سورہ العصر مکہ میں نازل ہوئی تھی، جب وہ اتری تو بعض صحابہ نے اس کو ایک تختی پر لکھا اور اس کو کعبہ کی دیوار پر آویزاں کر دیا۔ اس کے بعد مختلف لوگوں نے اس کو پڑھا۔ انھیں میں سے ایک لبید بن ربیعہ العامری (م۱۴ھ) تھے۔ وہ بھی نجد کے علاقے کے رہنے والے تھے۔ ان کا شمار اصحاب المعلقات میں ہوتا ہے۔ بعد میں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے اسلام قبول کیا۔
کہا جاتا ہے کہ اسلام سے ان کا پہلا تعارف سورہ العصر کے ذریعہ ہوا تھا، وہ مکہ آئے اور کعبہ کی دیوار پر لکھی ہوئی مختصر سورۃ العصر کو پڑھا۔ ان پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ جوش میں آکر اسی وقت کعبہ کا طواف کرنے لگے۔ آخر میں انھوں نے کہا: واللہ ما ھذا من کلام البشر(خدا کی قسم، یہ کسی انسان کا کلام نہیں)
اس کے بعد وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ وہ عرب کے ایک ممتاز شاعر تھے۔ مگر انھوں نے شاعری چھوڑ دی۔ کسی نے پوچھا کہ شاعری کیوں چھوڑی تو جواب دیا: اَبعد القرآن (کیا قرآن کے بعد بھی)۔ اسلام قبول کرنے کے بعد انھوں نے صرف ایک شعر کہا (ترک الشعر فلم یقل فی الاسلام الا بیتاً واحداً) الاعلام ۵/۰۳۲
ایک ہی واقعہ ایک شخص کے لیے گمراہی کا سبب بن گیا اور دوسرے آدمی کو اسی سے ہدایت مل گئی۔ اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ انانیت ہے۔ مسیلمہ اپنے سینہ میں انانیت لیے ہوئے تھا۔ وہ اپنے کو سب سے بڑا سمجھتا تھا۔ وہ خود اپنی ذات میں گم تھا، اس لیے وہ حق کو دیکھنے سے محروم رہا۔ اس نے اپنے آپ کو جانا، اور اس کی ذات کے باہر جو زیادہ بڑی حقیقت تھی اس کا ادراک کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہوسکا۔
اس کے برعکس معاملہ لبید کا تھا۔ وہ حق کو سب سے بڑا سمجھتے تھے۔ ان کا سینہ خود پسندی سے پاک تھا۔ وہ ذاتی مصالح سے اوپر اٹھ کر حقائق کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس بنا پر جب حق آیا تو فوراً وہ اس کو پہچان گئے، اور اپنے آپ کو فوراً اس کے حوالے کر دیا۔
اس دنیا میں سب سے بڑا جرم حق کا انکار ہے، اور سب سے بڑی نیکی حق کا اعتراف۔ پہلی چیز آدمی کو جہنم میں لے جاتی ہے، اور دوسری چیز اس کو جنت کا مستحق بنا دیتی ہے۔