ڈینگی اور جنت کے باسی ۔ ابویحییٰ
پچھلے کچھ عرصے سے ڈینگی کا مرض پیدا کر دینے والا مچھر ہمارے ملک کے لیے خوف و دہشت کی علامت بنا ہوا ہے۔ ہزاروں افراد اس سے متاثر ہوئے ہیں اور تا دم تحریر دو سو سے زائد لوگ اس مرض سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ گرچہ یہ مرض ناقابل علاج نہیں ہے، مگر پاکستان میں اس مرض سے مرنے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
ڈینگی مچھر نے پنجاب کے شہریوں کو بالخصوص زبردست خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ صبح و شام کے اوقات میں جب یہ مچھر باہر نکلتا ہے، لوگ گھروں سے نکلنے سے ڈرنے لگے ہیں۔ پارک ویران اور سوئمنگ پول غیر فعال ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اور معاشرتی رویے بدلے ہیں جن میں سے ایک تبدیلی خواتین کے لباس کے حوالے سے سامنے آئی ہے۔ جس کے پس منظ رمیں آج کل ایک دلچسپ ایس ایم ایس گردش میں ہے۔ اس کے مطابق جو کام بڑے بڑے علما کا وعظ نہیں کرسکا وہ مولانا ڈینگی نے کر دکھایا یعنی سلیولیس خواتین اب ڈینگی کے خوف سے فل آستینوں کی قمیضیں پہن رہی ہیں۔
یہ بظاہر ایک لطیفہ ہے لیکن اس کے اندر ایک بہت بڑی حقیقت پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ایک معمولی سی مخلوق بھی انسان کو راہ راست پر لانے کے لیے بہت ہے۔ مگر انسانوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی اسکیم یہ نہیں کہ وہ لوگوں سے طاقت کے بل پر اپنی بات منوائیں۔ ان کی قوت کے تو کیا کہنے، ان کی ایک بے وقعت مخلوق یعنی مچھر بھی انسان کو ان کی مرضی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ مگر انہیں مطلوب یہ ہے کہ لوگ بغیر کسی زور کے اور بن دیکھے ان کے سامنے بے اختیار ہوجائیں۔ یہی وہ اعلیٰ انسان ہیں جنہیں وہ ہمیشہ کے لیے جنت کی بادشاہی میں جگہ عطا کریں گے۔ باقی انسان تو کچرے کا ڈھیر ہیں جنہیں بہت جلد جہنم کے کوڑا خانے کی نذر کر دیا جائے گا۔