دور حاضر میں دنیا بھر کے مسلمانوں میں جس شخصیت کے علمی اور فکری کام کے سب سے زیادہ اثرات ہیں وہ مولانا مودودی کی ہستی ہے۔ ان کے بیشتر ناقدین اور مخالفین میں فکری طور پر دین کے بہت سے امور میں انھی افکار کے پیرو ہیں جو مولانا مودودی نے پچھلی صدی میں پیش کیے تھے۔
مولانا مودودی نے اپنے فکری کام کا آغاز اپنے رسالے ترجمان القرآن سے کیا تھا۔ یہ رسالہ ابتدا میں حیدرآباد دکن سے مولانا ابو صالح اصلاحی نے جاری کیا، مگر چھ ماہ بعد ان کے لیے اس کا چلانا ممکن نہیں رہا۔ جس کے بعد اپریل 1933ء میں اس کا انتظام و ادارت مولانا مودودی نے سنبھال لی۔ اپنے زیر ادارت اس پہلے شمارے میں انھوں نے ’’فاتحہ‘‘ کے عنوان سے ایک بڑی خوبصورت تحریر لکھی۔ اس میں انھوں نے ایک جگہ لکھا:
پس سلامتی کی راہ تو درحقیقت اس میں تھی کہ جوشخص رسوخ علم اور طہارت قلب کا مالک نہیں ہے وہ ترجمان القرآن کی تحریر و ترتیب کا کام ہاتھ میں نہ لیتا۔ مگر کام کی دشواری اور اپنی کمزوری کو جاننے کے باجود محض خدمت کے جذبے نے مجھ کو اس دعوت کے قبول کرنے پر مجبور کر دیا ہے جو مجھے اس کام کی جانب دی گئی تھی اور اس بھروسا نے میری ہمت بڑھائی کہ جس خدا نے میرے دل میں یہ جذبہ پیدا کیا ہے وہی رسوخ علم، صحت فکر، سلامت قلب اور طہارت نفس وروح بھی ارزانی فرمائے گا۔‘‘
اسی مضمون میں آگے چل کر وہ لکھتے ہیں:
’’میں اس کا مدعی بھی نہیں ہوں کہ مجھ سے غلطی نہیں ہوسکتی۔ ممکن ہے کہ کسی مسئلے کے سمجھنے یا بیان کرنے پر میں خود غلطی پر ہوں۔ ایسے مواقع پر میں امید کرتا ہوں کہ میری کسی غلطی کو قصد و ارادہ پر محمول نہ کیا جائے گا بلکہ ناواقفیت اور قلت فہم کا نتیجہ سمجھا جائے گا، اور اہل علم حضرات اس میں اصلاح کی کوشش فرمائیں گے۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ کوئی شخص مجھے اپنی غلطی پر اصرار کرنے والا ہٹ دھرم نہیں پائے گا۔‘‘
کسی مفکر یا علامہ کے افکار سے اتفاق یا اختلاف سے قطع نظر یہی وہ مقام ہے جس پر دین کی خدمت کے لیے اٹھنے والے ہر شخص کو قلبی اور ذہنی سطح پر کھڑا ہونا چاہیے۔ یعنی قلب کے اندر اپنی علمی اور عملی کمزوریوں کا احساس پوری طرح جاگزیں ہو اور ذہنی طور پر اپنی بات کی غلطی کو تسلیم کرنے کا جذبہ بیدار ہو۔
عام طور پر ہر فکر و مسلک کے بڑے لوگوں میں یہ احساس اور جذبہ موجود ہوتا ہے۔ مگر عام لوگ جو ان کی پیروی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، ایک طرف ان کو ایک سپر ہیومن بنا کر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف عملی طور پر ان کی ہر غلطی کا امکان رد کر دیتے ہیں۔
اسی نقطہ نظر کا نتیجہ فرقہ واریت، گروپ بندی، انتہا پسندی کا وہ رویہ ہے جس کا مشاہدہ اب ہم شب و روز اپنے معاشرے میں کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں لوگ جس فرقہ یا عالم سے وابستہ ہوجائیں اس کو آخری حق خیال کرتے ہیں۔ وہ اس پر ہونے والی سنجیدہ تنقیدوں کو بھی سننے اور پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
لیکن ایک بندہ مومن سے مطلوب رویہ وہی ہے جو مولانا مودودی کے حوالے سے اوپر بیان کیا گیا ہے۔ یعنی دین کے لیے کام کرنے والا ہر شخص اپنی کمزوریوں کو نظر میں رکھ کر اللہ تعالیٰ سے رسوخ علم اور طہارت قلب کی دعا کرتا رہے۔ جب بھی کوئی تنقید کی جائے، جواب دینے کی نفسیات سے نکل کر اپنے احتساب کے جذبے سے اس کا مطالعہ کرے۔ اس کے بعد غلطی کر کے بھی انسان خدا کے ہاں سرخرو ہوگا۔ اور اس کے برعکس رویے کا انجام خدا کی پکڑ کے سوا کچھ نہیں۔