دین و دنیا ۔ احسان اللہ
اگر مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر نگاہ ڈالی جائے تو ان میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ ان کے اذہان میں یہ تاثر پیدا ہوگیا کہ دین اور دنیا آپس میں متضاد ہیں۔ اس نقطۂ نظر کے کسی بھی حامی سے دنیا اور دنیوی ترقی کے بارے میں بات کی جائے تو وہ یہی کہتا ہے کہ دنیا 160 دکھ سکھ میں کٹ جائے گی بندے کو دین کی فکر کرنی چاہیے۔ اگر دیگر اقوام کی سائنسی ترقی کی مثال دی جائے تو جواب ملتا ہے کہ انھوں نے دنیوی ترقی کی ہے دین کے مقابل اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ ظاہر ہے جب معاشرے میں مجموعی طور پر یہ دنیا بیزار تاثر پیدا ہوگا اور اسی کی تبلیغ و ترویج کی جائے گی تو یہ معاشرہ دنیا میں کیونکر اپنا کوئی کردار ادا کرنے یا حصہ ڈالنے کے لیے آمادہ ہوگا۔
دین و دنیا کا یہ تصور سر تا سر خود ساختہ ہے۔ اگر دنیا کو دین سے الگ کر دیا جائے تو دین کی حیثیت چند رسمی عبادات کے مجموعے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ حالانکہ معاملات کے باب میں دینی تعلیمات کے مقصد کو اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ دنیوی معاملات کو اللہ اور رسول کی تعلیمات کے مطابق بطریق احسن انجام دیا جائے۔ دین و دنیا کا آپس میں وہی تعلق ہے جو جسم کا روح اور روح کا جسم سے ہے۔ لہٰذا یہ دین کا منشا تو کجا دین کی بنیادی تعلیمات کے ہی خلاف ہے کہ دنیا سے لاتعلقی برتی جائے اور خود کو صرف نماز روزہ یا وظائف اور مراقبات تک محدود رکھ کر اس خوش فہمی میں رہا جائے کہ ہم دین کے تقاضے پوری طرح نبھا رہے ہیں۔
اسلام میں دنیا کو دین کے متضاد کے طور پر پیش نہیں کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اسلام جو تصور پیش کرتا ہے وہ دنیا کے مقابلے میں دین کا نہیں بلکہ دنیا کے مقابلے میں آخرت کا تصور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان یہ نہ سمجھے کہ میری منزل مقصود یہی دنیا ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ دنیا فانی ہے اس کے بعد آخرت ہے جہاں انسان دنیا میں کیے گئے اپنے اعمال کا جوابدہ ہوگا۔ پس انسان کو چاہیے کہ وہ دنیوی امور انجام دیتے ہوئے آخرت کو اپنے پیش نظر رکھے۔ وہ ان تمام امور سے اجتناب کرے جن کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔ جو لوگ آخرت کو بھلا کر دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں اور دنیا ہی کے لیے جیتے اور مرتے ہیں قرآن میں ان کی مذمت کی گئی ہے اور انھیں بتایا گیا ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے۔
160 دین و دنیا کے تضاد کی یہ سوچ نتیجے کے اعتبار سے بہت بھیانک ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دنیا و آخرت کا تصور بہت حوصلہ افزا اور دنیا میں نیک اور پرہیزگار بن کر زندگی گزارنے کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے۔ جو لوگ دین و دنیا کو ایک دوسرے کے مخالف سمجھنے کے فلسفہ پر عمل پیرا ہیں وہ اس جانب مائل ہی نہیں ہوں گے کہ وہ مادی علوم سیکھیں جبکہ دنیا میں رہ کر آخرت کو پیش نظر رکھنے والے افراد ان علوم میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ وہ ان علوم میں مہارت حاصل کرکے انسانی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں گے اور دنیوی امور کو بخوبی انجام دے کر اپنی آخرت سنواریں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو فصل وہ یہاں بوئیں گے آخرت میں وہی کاٹیں گے۔