دعوت حق، شیاطین اور کنفیوژن ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ایک صاحب نے ایک اہم سوال اٹھایا۔ انھوں نے کہا کہ میں دین کے معاملے میں بڑے کنفیوژن کا شکار ہوں۔ اس لیے کہ میں جب کسی صاحب علم سے دین سیکھنا شروع کرتا ہوں تو تھوڑے عرصے میں انٹرنیٹ یا کسی اور ذریعے سے اس کے خلاف کوئی تحریر سامنے آجاتی ہے۔ جس کے بعد میرا اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور میں کنفیوز ہو جاتا ہوں۔
بلاشبہ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے۔ مگر یہ مسئلہ صرف اسی وقت تک مسئلہ ہے جب تک ہم انسانوں کے بارے میں امتحان کی نوعیت کو نہ سمجھ لیں جو اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے طے کیا ہے۔ یہ امتحان صرف عمل ہی کا نہیں بلکہ فکر کا بھی ہے۔ اس دنیا میں اگر پاکدامنی کا راستہ کھلا ہے اور بدکاری کی طرف بلانے والی فاحشائیں موجود ہیں، یہاں اگر سچ بولنا اور دیانت داری اختیار کرنا ممکن ہے اور جھوٹ، بددیانتی اور کرپشن کی راہیں آسان ہیں، اگرعدل کا طریقہ اختیار کرنا ایک انتخاب ہے اور ظلم و زیادتی کی روش آسان تر انتخاب ہے تو اسی دنیا میں سچائی کی طرف بلانے والے بھی اللہ کے اذن سے موجود ہیں اور گمراہی کو سچ بنا کر پیش کرنے والوں کی موجودگی بھی مشیت الہی کا نتیجہ ہے۔ خدا کی اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ ساری سچائی کسی کو پیدائشی طور پر مل جائے اور اسے سچ کو تلاش نہیں کرنا ہوگا۔ انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ گمراہی کی ہر پگڈنڈی سے بچے۔ اس کے لیے تحقیق کرنا بھی کرنے کا کام ہے۔ جنت اس کے بغیر نہیں مل سکتی۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آزمائش کی اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ انبیا اور صالحین کو تو کام کرنے کی اجازت دے دیں اور شیاطین اور مجرمین کو پابندِ سلاسل کر دیں۔ ایمان واخلاق کی صدا دینے والوں کو تو بھرپور مواقع دیں لیکن جب کوئی ان پر الزام و بہتان لگانے کھڑا ہو تو اس کا منہ بند کر دیں۔ نیکی کی راہ دکھانے والوں کی راہ تو فرشتے ہموار کریں مگرجھوٹوں، گمراہوں اور غلط نظریات کے فروغ کا کام کرنے والوں کی راہ میں پتھر ڈال دیے جائیں۔
اس دارالامتحان کی یہی وہ سچائی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس طرح واضح کیا ہے کہ جب کبھی سچ کی دعوت اٹھتی ہے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے شیاطین جن و انس دونوں حرکت میں آجاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور اسی طرح ہم نے انسانوں اور جنوں کے اشرار کو ہر نبی کا دشمن بنا دیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کو دھوکا دینے کے لیے پرفریب باتیں القا کرتے رہتے ہیں۔ تیرا رب چاہتا تو وہ یہ نہ کر پاتے۔ تو تم ان کو ان کی انہی افترا پردازیوں میں پڑا رہنے دو‘‘،(انعام۶ : ١١۲)
یہی بات سورہ فرقان (۲۵:۳١) میں اس طرح کہی گئی ہے کہ ہم نے ہر نبی کے مجرموں میں سے دشمن بنائے۔ یہ بات صرف انبیاء کی حد تک درست نہیں بلکہ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ، وإنَّ العلماءَ ورثةُ الأنبیاءِ (علما انبیا کے وارث ہیں)، لہٰذا جب کبھی علما انبیا کی وراثت میں ایمان و اخلاق کی دعوت اٹھاتے ہیں تو شیطانوں کے وارث بھی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور الزام، بہتان، جھوٹ اور فریب کے ہتھیاروں کو سجا کر میدان میں آجاتے ہیں۔
تاہم جیسا کہ آیت مبارکہ میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے تو ایسا نہیں ہوتا مگر یہ سب اللہ تعالیٰ کی اسی حکمت کے تحت ہو رہا ہے جس کا ہم نے پیچھے ذکر کیا۔ یہ آزمائش کا حصہ اور نجات کا لازمی تقاضہ ہے۔ یہ فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ سچے اور جھوٹے لوگوں میں فرق کرے۔
مگر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی سچ اور جھوٹ اور صحیح اور غلط کا فیصلہ کیسے کرے۔ اس لیے کہ یہاں ہر شخص ہی سچ اور حق کے نام پر کھڑا ہوتا ہے۔ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ وہ یہ کہ ایک سچے آدمی کی بات اور اس کا طریقہ ہمیشہ اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ اصولوں کے مطابق ہوتا ہے۔ ایک سچے داعی کی دعوت ہمیشہ ایمان و اخلاق کی صراط مستقیم کی طرف بلاتی ہے۔ ایک اللہ کی بندگی، اس کی رسول کی اطاعت اور اس کی جنت کے اعلیٰ ترین مقصد کے سوا وہ کوئی اور نصب العین سامنے نہیں رکھتا۔ وہ اس دعوت کو اخلاقیات کے مسلمہ معیارات کے مطابق ہی سامنے رکھتا ہے۔
اس کے برعکس شیاطین اور انسانوں میں سے ان کے پیروکار کتنا ہی اللہ رسول کا نام لیں، وہ ہمیشہ مسلمہ اخلاقیات کی دھجیاں بکھیر کر بات کرتے ہیں۔ جھوٹ، فریب، الزام، بہتان اور منفی پروپیگنڈا ان کا وطیرہ ہوتا ہے۔ فتنہ و فساد کی آگ بھڑکانا ان کا طریقہ ہوتا ہے۔ نفرت، غضب، انتشار، ظلم اور قتل و غارتگری ان کی دعوت کے لازمی نتائج ہوتے ہیں۔ لوگوں کی جان، مال اور آبرو ان کا نشانہ ہوتی ہے۔ وہ فرقہ واریت اور تعصب کے مریض ہوتے ہیں۔ کفر و ضلالت کے فتووں کی فیکٹریاں ان کا کاروبار ہوتی ہیں۔ وہ یہ سب کچھ کرتے ہیں اور خود کو اصلاح اور خیر کا سب سے بڑا علمبردار اور دوسروں کو سراپا شر اور ضلالت قرار دیتے ہیں۔ مگر عام فرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی باتوں پر کبھی نہ جائے بلکہ یہ دیکھے کہ کون مسلمہ اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ کون ایمان کی صراط مستقیم کو چھوڑ کر تعصب کی پگڈنڈی پر کھڑا ہے۔ کون نفرت کا درس دے رہا ہے اور کس کی شخصیت اور عمل نبی آخرزماں کی محبوب سیرت کا عکس ہے۔
عام لوگ بلاشبہ فکری مباحث کو گہرائی میں سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ مگر مسلمہ انسانی اقدار کی خلاف ورزی بھی ان کو نظر نہ آئے، یہ ممکن نہیں۔ وہ اور کچھ نہ کرسکیں تو یہی دیکھ لیں کہ کون مسلمہ اخلاقیات کو پامال کر رہا ہے اور کون نہیں۔ جو لوگ یہ فرق دیکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود اخلاقی پستی کا شکار ہیں۔ جو لوگ پستی کے اس گڑھے میں جا گریں ان کا انجام صرف جہنم کی کھائی ہے۔ یہاں وہ اپنے جھوٹے لیڈروں کے ساتھ ہمیشہ کے عذاب میں روتے اور تڑپتے رہیں گے۔