داستان غم ۔ ابویحییٰ
آج کے دور میں جس سے ملیے وہ اپنے دکھوں اور مسائل کی داستان سناتا ہوا ملے گا۔ جو مسائل کا ذکر نہیں کرتا وہ نہ ملی ہوئی چیزوں اور محرومیوں پر سراپا حسرت و یاس بنا ہوا ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کے پاس موضوع گفتگو اگر ہے تو صرف یہ ہے کہ ان کے پاس کیا نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ یہ گفتگو وہ لوگ کرتے ہیں جن کے دور میں انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک عام آدمی کو بھی وہ کچھ میسر ہے جو ماضی میں بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں تھا۔
اس بات کی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ آج کے لوگوں کو رفع حاجت کے لیے کمرے سے باہر بھی نہیں جانا پڑتا اور اسی اٹیچ باتھ روم میں وہ سخت سردی میں گرم پانی سے نہاتے ہیں۔ جبکہ سخت گرمی میں ٹھنڈے اے سی اور مسلسل ہوا والے پنکھے کی سہولت کبھی کسی فاتح عالم کو بھی نہیں نصیب نہ ہوسکی۔ ہزاروں میل کا سفر چند گھنٹے میں طے کر کے مکہ پہنچنے کی سعادت کبھی کسی پیغمبر کے حصے میں بھی نہیں آئی۔ مگر آج کے ہر انسان کے لیے یہ معمول کی بات ہے۔
ان جیسی نجانے کتنی مثالیں ہر سو بکھری ہوئی ہیں۔ مگر کوئی شخص ان کو دریافت کر کے اپنے مالک کے حضور سجدے میں نہیں گرتا۔ کوئی نہیں جو روتا اور گڑگڑاتا ہوا یہ کہے کہ پروردگار تو نے مجھے وہ دیا جو بادشاہوں کو دیا نہ نبیوں کو ملا۔ ہاں غربت کے شکوے بہت ملیں گے۔ محرومی کی شکایت بہت بیان ہوگی۔ مایوسی کے قصے بہت سنائے جائیں گے۔
مگر کاش کوئی ان دکھی لوگوں کو یہ بتائے کہ یہ ہزار پا کر ایک کے کھونے کا شکویٰ کر رہے ہیں۔ اہم ترین پا کر بہت کم کی محرومی سے رنجیدہ ہیں۔ کاش یہ لوگ اس حقیقت کو جان لیں تو ان کے دکھ کے آنسو شکر گزاری کے موتیوں میں بدل جائیں گے۔ ان کی محرومیاں احسان مندی کے لہجے میں ڈھل جائیں گی۔ پھر ایک روز خدا انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی ختم نہ ہونے والی نعمتوں میں بسا دے گا۔ جہاں کوئی دکھ ہوگا نہ کوئی محرومی۔