کورٹ مارشل ۔ پروفیسر محمد عقیل
ہمارے ملک میں کئی طرح کے طبقات موجود ہیں جن میں سے ایک فوج اور سویلین کی تقسیم ہے۔ وہ لوگ جو فوج میں شامل ہوتے ہیں بالعموم انہیں دیگر طبقات کے مقابلے میں زیادہ مراعات ملتی ہیں جن میں پلاٹس، فری میڈیکل کی سہولیات، بعد از ریٹائرمنٹ ملازمت کا حصول اور سوسائٹی میں اعلی مقام وغیرہ شامل ہیں۔ دوسری جانب سویلین افراد ان سہولیات سے محروم ہوتے ہیں یا انہیں اس درجے میں حاصل نہیں کر پاتے۔
اس تفریق کے باوجود یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوج کے لوگوں پر جس قسم کے سخت قوانین اور ڈسپلن لاگو ہوتا ہے وہ عام سویلین پر نہیں ہوتا۔ ایک فوجی ملازمت سے آسانی سے استعفیٰ نہیں دے سکتا، اس کی آزادانہ نقل وحرکت پر چیک رکھا جاتا ہے، اسے نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لئے سخت ٹریننگ سے گزارا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ فوجیوں کو ڈسپلن کی خلاف ورزی پر عام عدالتوں میں نہیں بلکہ فوجی کورٹ مارشل یعنی فوجی عدالت میں مقدمہ کے لئے پیش کیا جاتا ہے جس کے قوانین اور سزائیں کافی سخت ہوتی ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک میں ایک عدالتی نظام موجود ہے تو کورٹ مارشل یا فوجی عدالتوں کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فوج ملک کے حساس اداروں میں سے ایک ہے۔ اس کا کام ملک کا دفاع ہے۔ اس ادارے میں معمولی سی غلطی، جرم، بغاوت یا سازش ملک و قوم کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اسی لئے اس ادارے سے منسلک افراد کو ایک سخت قسم کے نظم و ضبط کا پابند کیا جاتا ہے۔ اس ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سخت قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں جو عام عدالتوں کے برعکس کافی سخت تصور کی جاتی ہیں۔
کچھ اسی سے ملتی جلتی تفریق عام مسلمانوں اور دین کے داعیوں کے درمیان بھی پائی جاتی ہے۔ ایک شخص جب تک عام مسلمان ہے تو اس پر عام قوانین ہی لاگو ہوتے ہیں۔ لیکن جب ایک شخص خدا کے دین کا داعی بن جاتا، اس کے دین کا پرچار کرتا، اس کی توحید کو دنیا میں روشناس کراتا اور اس کے دین کا علمبردار بن جاتا ہے تو اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ ایک جانب تو اس کا اجر بہت بڑھ جاتا ہے۔ وہ اپنے وقت، علم، قابلیت اور توانائی کو دین کے کاموں میں لگا کر خدا کا تقرب حاصل کرسکتا ہے، جنت میں اعلی درجات پاسکتا اور اپنا مقام بہت بلند کرسکتا ہے۔
دوسری جانب اس کی زندگی پر فوجی ڈسپلن لاگو ہوجاتا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسے عام مسلمانوں سے زیادہ تقوی، صبر، تعلق باللہ، عبادات اور اخلاقیات میں اپنی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ سب وہ اس لئے کرتا ہے تاکہ اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوجائے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے داعی کے لئے لازم ہے وہ اپنی ذات پر عام لوگوں سے زیادہ چیک لگائے۔ وہ دوسروں سے زیادہ اپنے عیوب پر نظر رکھے، وہ لوگوں سے زیادہ اپنے آپ کو تنقید کے لئے پیش کرے۔ وہ ہر لمحہ اسی فکر میں غلطاں ہو کہ کہیں وہ دوسروں کی اصلاح کرتے کرتے خود کو فراموش نہ کربیٹھے، وہ دوسروں کے دامن کو آگ سے بچاتے بچاتے خود اپنے وجود کو شعلوں کی نذر نہ کر دے، لوگوں کے نفس کا تزکیہ کرتے کرتے خود اپنی شخصیت کو ہی آلودہ نہ کر بیٹھے۔
خدا کے نزدیک ایسا شخص بہت برا ہے جو لوگوں کو سچائی کا درس دے اور خود جھوٹ بولے، ناحق قتل کی مذمت کرے خود اس کے ہاتھ خون میں رنگے ہوں، محبت کا درس دے لیکن خود کے سینے میں نفرتوں کے سانپ لوٹ رہے ہوں، بدگمانی سے منع کرے مگر اپنے حریفوں کے بارے میں حسن ظن کو گناہ سمجھے، نفاق کو برائی بیان کرے اور خود دوغلے پن کا مظاہرہ کرے۔
اگر ایک داعی نے اپنی شخصیت کی اصلاح بھی کی اور اللہ کا پیغام بھی لوگوں تک پہنچایا تو اس کا اجر دوگنا ہے۔ جنت کے اعلی باغات اس کے منتظر ہیں۔ دوسری جانب اگر اس نے اپنی ذات کو آلودہ کر دیا اور اسی حالت میں خدا کے حضور پہنچا تو اس کی سزا دوگنی ہے۔ اب اس کا کیس خدا کی خصوصی عدالت میں چلے گا جہاں کی پکڑ اور سزا عام سزاؤں سے دوگنی اور اذیت ناک ہوگی۔