کرونا وائرس:چندنکات کی وضاحت ۔ ابویحییٰ
کرونا وائرس کے حوالے سے ایک نکتہ یہ اٹھایا جارہا ہے کہ اس نے ثابت کردیا کہ دنیا اسباب کے تحت چل رہی ہے۔ کروناوائرس عالم اسباب کے تحت انسانوں میں پھیلا اور عالم اسباب ہی میں اس کا علاج بھی دریافت ہوجائے گا، خدا کا اس پورے معاملے میں کوئی کردار نہیں۔ بلکہ اس طرح کے واقعات بتاتے ہیں کہ کوئی خدا نہیں۔ اب مستقبل سائنس اور علم ہی کا ہے۔
اس نامعقول بات کے جواب میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ تاریخ پڑھ لیجیے۔ موجودہ علمی اور سائنسی ترقی سے پہلے بھی دنیا میں بیماریاں، وبائیں پائی جاتی تھیں اور قدیم انسان سائنس کی موجودہ ترقی کے بغیر ان کو جھیل گیا اور آج بھی کرہ ارض پر موجود ہے۔ یہ خدا ہے جس نے جدید سائنس کے بغیر بھی انسان کو اس کرہ ارض پر باقی رکھا تھا اور تاقیامت باقی رکھے گا۔ سائنس، اس کی ترقی، اس کی خدمات اپنی جگہ، مگر یہ خدا کا نعم البدل نہ ہیں نہ ہوسکتے ہیں۔ سائنس ہو یا دیگر اسباب یہ سب خدا کی نعمتیں ہیں، خدا نہیں ہیں۔ ان کو نعمت سمجھیں گے تو شکر گزاری پیدا ہوگی۔ خدا سمجھیں گے تو سرکشی پیدا ہوگی جو ناقابل معافی جرم ہے۔
کرونا وائرس کے حوالے سے ایک نکتہ یہ اٹھایا جارہا ہے کہ اس وائرس نے ثابت کردیا کہ مذہب کا عملی دنیا میں کوئی کردار نہیں۔ یہ بات کہی جارہی ہے کہ کرونا وائرس میں نہ آب زم زم موثر ہے اور نہ کوئی دعا اور وظیفہ۔ اب دنیا کی امید صرف سائنسدان اور ان کی لیبارٹریاں ہیں۔
اہل مذہب کچھ بھی کہتے رہیں، اصل مذہب یعنی دین اسلام نے کبھی اپنے آپ کو اس حیثیت میں پیش نہیں کیا کہ وہ کسی بیماری کے علاج کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اگر شفا کہا ہے تو اسے دلوں کے امراض کی شفا قرار دیا ہے نہ کہ بیماریوں کی شفا۔ اس لیے اعتراض اگر ہوتا ہے تو ان لوگوں پر ہوتا ہے جو دین کو غلط حیثیت میں پیش کرتے ہیں۔ رہی دعا تو وہ بندگی کا تقاضا ہے جو ہرحال میں مطلوب ہے۔
ایک سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ اس طرح کی وبائیں خدا پیدا ہی کیوں کرتا ہے؟ کیا خدا لوگوں کو خوفزدہ رکھنا چاہتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اس طرح کی چیزوں کے ظہور کا الزام اول تو خدا پر ڈالنا ہی درست نہیں۔ اکثر ایسی چیزیں انسانوں کی اپنی غلطیوں، جسمانی اور اخلاقی ناپاکیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ اس دنیا میں سب کچھ خدا کے اذن سے ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال بہرحال پیدا ہوتا ہے کہ ان وباؤں کے پھیلنے میں خدا کی حکمت کیا ہے؟
ایسی وباؤں میں خدا کی حکمت کے کئی پہلو پوشیدہ ہیں۔ ایک یہ کہ یہ چیزیں ہی انسانوں کو اس بات پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ زندگی اور دنیا کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ ہوں۔ دوسرے یہ کہ ایسی مشکلات انسانوں کو خدا کی ان نعمتوں اور عافیتوں کی یاد دلاتی ہیں جو انھیں مسلسل حاصل رہتی ہیں لیکن لوگ ان کا شکر ادا نہیں کرتے۔ تیسرے یہ کہ ایسی تکالیف انسان کو خدا کے پیغمبروں کے اس انذار سے آگاہ کرواتی ہیں جو وہ آخرت کے حوالے سے کرتے ہیں۔
آخرت کی دنیا میں جو لوگ دلوں کی بیماریوں یعنی تکبر، غفلت، سرکشی یا ظلم کا شکار ہوں گے وہ خدا کی ابدی رحمت، عافیت اور انعام کی جگہ یعنی جنت سے محروم ہوکر اپنی ناشکری اور بدکاری کی سزا پائیں گے۔ اس سزا میں موت سب سے بڑی نعمت ہوگی، مگر موت بھی ایسے مجرموں کے لیے ختم کردی جائے گی۔ اسلام اسی ابدی انعام کی طرف بلاتا اور ابدی سزا سے بچنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ وبائیں انسان کو غفلت سے جھنجھوڑ کر انبیا کی بات سننے پر آمادہ کرتی ہیں۔
ایک شبہ یہ ہے کہ کرونا کی بیماری میں حرم کعبہ ویران ہوگیا، طواف رک گیا۔ اس طرح کے شبہات ایک دفعہ پھر اسلام سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کردیا تھا کہ انسانی جان کی حرمت کعبہ کی تمام تر حرمت کے باوجود اس سے زیادہ ہے۔ اس لیے انسانی جانوں کے تحفظ کے لیے چاہے طواف روکا جائے یا کوئی اور مناسب قدم اٹھایا جائے، دین کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔