سویلین بالادستی اور قانون کی بالادستی ۔ ابویحییٰ
پچھلے کچھ برسوں سے پاکستان میں سویلین بالادستی کا بہت شور ہے۔ اسے تمام سیاسی اور اسی کے ذیل میں دیگر مسائل کے حل کا بنیادی ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سویلین بالادستی پاکستان کے کسی مسئلے کا حل ہوتی تو پاکستان کے مسائل 1971 سے 1977 کے درمیان میں حل ہوچکے ہوتے جب سویلین بالادستی آخری درجہ میں قائم تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا اصل مسئلہ قانون کی بالادستی کا نہ ہونا ہے۔ جس روز یہ مسئلہ حل ہوگیا سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔
قانون کی بالادستی کیا ہے؟ یہ اس حقیقت کو ماننے کا نام ہے کہ کوئی سویلین ہو یا غیر سویلین، جرنل ہو یا جج ہو، طاقتور ہو یا کمزور ہو سب پر قانون کے مطابق چلنا فرض ہے۔ جو شخص اس اصول کی خلاف ورزی کرے گا، وہ ہر عوامی اور سرکاری عہدے کے لیے نااہل ہوجائے گا۔
مگر ہمارے ملک کی حقیقت یہ ہے کہ یہاں ہر طاقتور انسان چاہے وہ کسی بھی عہدے پر ہو، اپنے مفاد کے لیے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ حتیٰ کہ اس ملک کے جج اور وکیل بھی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس پارلیمنٹ، جو قانون کا سرچشمہ ہے، کے اراکین ہی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ جہاں قانون کے رکھوالوں کی صورتحال یہ ہو وہاں کسی اور سے قانون کی پاسداری کی کیا توقع کی جاسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سویلین بالادستی بھی قانون کی بالادستی ہی کا لازمی نتیجہ ہے۔ کیونکہ قانون یہی کہتا ہے کہ معاشرے میں سویلین کی بالادستی قائم ہونی چاہیے۔ مگر خود سویلین کو مادر پدر آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا ۔طاقت ملنے پر یہ خود بھی فرعون سے کم ثابت نہیں ہوتے۔ اس لیے جو عوام کا بھلا چاہتے ہیں انھیں قانون کی بالادستی کی بات کرنی چاہیے۔ ورنہ سویلین بالادستی قائم ہو بھی گئی تو فسطائیت اور ظلم کی ایک نئی شکل کے سوا ہمیں کچھ نہیں ملے گا-