چند لمحوں میں ۔ ابویحییٰ
یہ سن 1998 کا ذکر ہے۔ میں اس زمانے میں جدہ میں مقیم تھا۔ میں اپنے گھر والوں کے ہمراہ ساحل سمندر گیا ہوا تھا۔ ہم ساحل پر ایک ایسی جگہ تھے جہاں وقفے وقفے سے انتہائی تیز رفتار لہریں چٹانی پتھروں سے آکر ٹکراتیں۔ کچھ دیر کو لہریں کم ہوئیں تو میں پتھروں پر چلتا ہوا آگے بڑھتا چلا گیا۔ کچھ آگے پہنچا تو دوبارہ تیز لہریں اٹھنے لگیں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میں سخت مشکل میں پھنس گیا ہوں۔ کسی وقت بھی کوئی بڑی لہر اٹھتی، مجھے پتھروں سے ٹکرا کر بے دم کرتی اور ساتھ بہا کر لے جاسکتی تھی۔
ایک لمحے میں خوف میرے اوپر سے نیچے تک تیر گیا۔ نہ اپنی جگہ کھڑا رہنا ممکن تھا نہ واپس جانا۔ مگر اس لمحے بجائے اس کے کہ میں بدحواس ہوتا اللہ کی طرف سے مدد ہوئی اور میری نظر قریب موجود ایک بڑے چٹانی پتھر پر پڑی جو میرے قد کے برابر تھا۔ میں تیزی سے اس کی طرف بڑھ گیا۔ لہریں اس چٹان سے ٹکرا کر ٹوٹ رہی تھیں اور میں ان کی پہنچ سے دور اطمینان سے اس چٹان کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں مجھے اندازہ ہوگیا کہ لہریں کچھ وقفہ کے بعد کم ہوجاتی ہیں اور میں اس وقفہ میں واپس جاسکتا ہوں۔ چنانچہ میں اطمینان سے کھڑا انجوائے کرتا رہا اور جب دل بھر گیا تو ایسے ہی وقفہ میں واپس ساحل پر چلا گیا۔
میں جب واپس آیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ اللہ کی عنایت سے میں نے ہزاروں برس پر پھیلے فکر انسانی کے ارتقا کو چند لمحوں میں سمجھ لیا ہے۔ انسانی فکر اپنی تاریخ میں تین مرحلوں سے گزری ہے۔ ایک مرحلہ شرک کا ہے۔ اس مرحلے میں انسان نے کائناتی قوتوں اور مخلوقات کے مقابلے میں اپنی کمزوری کو دیکھا۔ وہ ان سے خوفزدہ ہوگیا۔ جس کے بعد وہ مخلوقات کے سامنے سجدہ ریز ہوکر ان کو معبود بنا بیٹھا۔ میں جس وقت لہروں کی زد میں تھا میں نے انسان کے اِسی خوف کو دریافت کیا تھا۔ میں نے سمجھ لیا کہ زمانہ قبل از تاریخ سے لے کر بنی اسرائیل کے عروج کے دور تک دنیا کس خوف میں مبتلا ہو کر غیر اللہ کی پرستش کرتی تھی۔
فکر انسانی کا دوسرا مرحلہ وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے وحی پر مبنی تہذیب کو عالمی تہذہب بنا دیا اور پیغمبروں اور ان کی امتوں کے ذریعے سے دنیا کو توحید کا پیغام پہنچا۔ یہ دور ہزار قبل مسیح سے لے کر تقریبا اٹھارہویں صدی عیسوی تک کے دور پر محیط ہے۔ اس دور میں لوگ آسمانی وحی کی روشنی میں جیتے تھے اور صراط مستقیم پر چلتے تھے۔ میرے لیے یہ وہ لمحہ تھا جب اللہ کی عنایت نے میری بالکل درست رہنمائی کی اور میں گھبرانے کے بجائے بالکل صحیح چٹان کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا۔
انسانیت کا تیسرا دور انکار خدا کا دور ہے۔ یہ وہ دور ہے جس میں انسانیت نے یہ سمجھ لیا کہ دنیا عالم اسباب ہے اور وہ کون سے اسباب ہیں جن کے ذریعے سے فطرت کی طاقتوں کو لگام ڈال کر اپنے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ انیسویں صدی سے جاری اس دور میں انسان مزے سے دنیا پر حکومت کر رہا ہے۔ ہواؤں، سمندروں، زمین و آسمان اور سرد و گرم موسم کو مسخر کر کے زندگی کو انجوائے کر رہا ہے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے لہروں کے آنے جانے کے وقفے اور واپسی کے درست راستے اور وقت کو مکمل طور پر سمجھ لیا تھا۔ جس کے بعد میں سمندر اور موجوں کو انجوائے کرنے لگا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں یہ مراحل آتے ہیں۔ کبھی وہ مشکلات میں گھر جاتا ہے۔ ایسے میں وہ غیر اللہ کے پیچھے دوڑتا ہے۔ کبھی زندگی اسے اپنے قابو میں لگتی ہے اور وہ اسے بھرپور انجوائے کرتا ہے۔ مگر اس لمحے وہ اللہ کو مکمل طور پر بھولا ہوا ہوتا ہے۔ مگر عقلمند انسان وہ ہوتا ہے جو مشکلات کے طوفان میں گھرنے کے بعد بھی صرف اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اور جب وہ آسانی میں ہو تب بھی خدا کو نہ بھولے۔ جس نے یہ کرلیا وہی بندگی کی صراط مستقیم پر سیدھا چل کر جنت الفردوس کی منزل تک جا پہنچے گا۔