بہت دیر نہ ہو جائے ۔ ابویحییٰ
یہ دو ہستیوں کا قصہ ہے۔ ایک صاحبِ کمال ۔ ۔ ۔ بے عیب، بے مثل، لازوال اور بے نظیر ہے۔ دوسرا غفلت کا شکار، تعصبات کا قیدی، جذبات کا غلام اور خواہش کا اسیر ہے۔
ایک رب اعلیٰ ہے۔ ہر تعریف کا مستحق۔ ہر حمد کا سزا وار۔ جو بھولتا نہیں ۔ ۔ ۔ اس غلام کو بھی جو اسے بھول جائے۔ وہ اپنے بندوں کی آہ کو سنتا اور ان کی مشکلات دور کرتا ہے۔ کس قدر اعلیٰ ہے وہ مالک جو اپنے غلام کی پکار پر لبیک کہہ کر ہر دشمن کے مقابلے میں اس کی سپر بن جاتا ہے۔
دوسرا بندہ اسفل ہے۔ بے ہنر، بے وسیلہ، بے ثمر، مگر اعتماد کا عالم یہ ہے کہ خالق دو جہاں کا انکار کرتا ہے۔ مانتا ہے تو شریک ٹھہراتا ہے۔ کوئی اورنہ ملے تو نفس کی غلامی شروع کر دیتا ہے۔
ایک العزیز و الرحیم ہے کہ جسم کو پالتا اور روح کو ہدایت کی غذا دیتا ہے۔ فرشتوں کو بھیجتا، کتابوں کو اتارتا اور انبیا کو مبعوث کرتا کہ غلام کل اس کے حضور رسوا نہ ہوں۔
دوسرا وہ کم سواد ہے جو خدا کے دین کی نصرت کرنے کے بجائے اپنے تعصبات کے لیے لڑتا ہے۔ سچائی کا انکار کرتا ہے۔ ایمان کا منکر ہوتا ہے اور اخلاق کو پامال کرتا ہے۔ یہ الزام لگاتا، طعنے دیتا، جھوٹ پھیلاتا اور بہتان تراشتا ہے۔ ساتھ میں دعویٰ ایمان بھی کرتا ہے۔
ان دو ہستیوں میں تیرا کیا مقام ہے؟ تو خدا بن نہیں سکتا۔ مجرم بن کر بچ نہیں سکتا۔ بس تو بندہ بن جا۔ نفس کی غلامی سے نکل۔ تعصب کے جال کو کاٹ۔ فرقہ کی زنجیر کھول۔ نفرت کی قینچی کو چھوڑ۔ عبدیت کا جام پی اور توبہ کرلے۔ خدا کے غلاموں کے ساتھ حمد کر۔ وہ نہ ملیں تو سورج کے ساتھ، چاند کے ساتھ، کائنات کے ساتھ مل کر خدا کی حمد کر۔ ۔ ۔ کہ بہت جلد مجرموں کی جڑ کاٹ دی جائے گی۔ حمد کرنے والوں کو حیات ابدی کے چشمہ سے سیراب کردیا جائے گا۔
اٹھ اب دیر نہ کر۔ گندگی کو چھوڑ۔ ۔ ۔ زندگی کو لے۔ کہیں بہت دیر نہ ہوجائے۔