بے کردار اسلام پسندی ۔ ابویحییٰ
پچھلے کچھ عرصہ سے پے در پے ایسے واقعات پیش آرہے ہیں جن سے عوام الناس کا اعتماد اسلام کے نام پر کھڑی لیڈر شپ پر سے اٹھتا چلا جارہا ہے۔ پچھلے دو تین برسوں میں مغرب میں موجود بعض نمایاں مسلم اسکالر اور اس سے قبل خود ہمارے اپنے ملک کے بعض علماء کے سیکس اسکینڈل بہت مشہور ہوئے۔ اسی طرح عشق کے جذبے سے سرشار بعض ’’خدام‘‘ دین اور پھر حال ہی میں اسلام کا حوالہ دیتے رہنے والے دو معروف صحافیوں کی تہذیب و شائستگی سے گری ہوئی گفتگو کے منظر عام پر آنے سے عام لوگوں کا دین پر اعتماد مجروح ہوا ہے۔
یہ تو وہ چیزیں ہیں جن کو ہمارے معاشرے میں کچھ برا سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ جو برائیاں ہماری لیڈر شپ تاویل کے راستے سے اختیار کیے ہوئے ہے یا جن کو برا ہی نہیں سمجھا جاتا ہے، ان کے بارے میں تو عوام الناس میں بھی وہ حساسیت نہیں جو خود دین کا تقاضا ہے۔ حالانکہ ہماری مذہبی اور فکری لیڈر شپ علانیہ اور تسلسل کے ساتھ اسلام کے نام پر ان برائیوں کا ارتکاب کر رہی ہے۔ جیسے دہشت گردوں کی حمایت، فرقہ وارانہ منافرت کا فروغ، اہل علم کے خلاف جھوٹی مہمیں اور بہتان و دشنام کا وہ سلسلہ جس کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
اس بے کردار اسلام پسندی کا ظہور اس دور میں ہورہا ہے جس میں اسلام کے نام پر جنم لینے والی فعالیت اور سرگرمی (Activism) کی نظیر ماضی میں کبھی نہیں ملتی۔ احیائے اسلام کے اس خواب کو تو جانے دیجیے جس کے لیے بے پناہ قربانیاں دی گئیں اور جان و مال کی زبردست جدوجہد کی گئی اور جو خواب اس ساری جدوجہد کے باوجود ہنوز تشنہ تعبیر ہے، مگر اخلاقی معاملات میں جو رویہ پیروکاروں سے بڑھ کر لیڈر شپ میں نظر آتا ہے اور جس کی کچھ مثالیں اوپر گزریں، اس کے بعد یہ سوال لازمی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ اس خرابی کو دریافت کیا جائے جس کی بنا پر اتنی غیر معمولی کوشش ایسے نتائج کا باعث بنی ہے۔
ہمارے نزدیک اس کا سبب بالکل واضح ہے۔ قرآن مجید ایمان واخلاق کی جس دعوت کو نجات کی کنجی قرار دیتا ہے اور جس کی بنیاد پر صحابہ کرام سے دنیا میں غلبہ اور اقتدار کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ ہمارے موجودہ مذہبی فریم ورک میں بالکل غیر اہم ہوچکی ہے۔ اس کی جگہ فرد کے ظاہری حلیے کی تبدیلی، سیاسی انقلابی سوچ، فرقہ وارانہ تعصبات، عشق و محبت کے زبانی دعوے، ماضی پر فخر اور دوسروں کا احتساب جیسے تصورات نے لے لی ہے۔ یہ ہماری مذہبی فکر کا کل سرمایہ ہے۔ اس سرمائے سے آپ اعلیٰ انسان پیدا نہیں کرسکتے۔ اس سے وہی مثالیں جنم لیں گی جن کا ذکر پیچھے ہوچکا ہے۔
اس کے برعکس ایمان واخلاق کی وہ دعوت جس سے قرآن مجید کے صفحات بھرے ہوئے ہیں اور جس کا زندہ عکس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی ہستی میں دیکھا جاسکتا تھا، یہ دعوت اعلیٰ انسانوں کو جنم دینے کا ایک سائنسی فارمولا ہے۔ یہ دعوت خدا کے حضور پیشی کو سب سے بڑا مسئلہ اور آخرت کی نجات کو سب سے بڑی کامیابی بنا دیتی ہے۔ اس کے مقصد کے حصول کے لیے جو پہلا ہدف ایمان و اخلاق کی یہ دعوت انسان کے سامنے رکھتی ہے وہ یہی ہے کہ انسان اپنے ہر گروہی تعصب، فرقہ وارانہ ذہن اور ذاتی مفاد سے اوپر اٹھ جائے۔ یہ دعوت انسان کو اشتعال کے بجائے صبر میں جینا سکھاتی ہے۔ یہ خواہش اور شہوت کو جائز حدود تک محدود رکھنے کا درس دیتی ہے۔ یہ دوسروں کے احتساب کے بجائے اپنے احتساب پر متوجہ کرتی ہے۔ یہ الزام و بہتان کے بجائے علم و تحقیق پر زور دیتی ہے۔ یہ نفرت کے بجائے خیر خواہی اور عداوت کے بجائے دعوت کا ذہن پیدا کرتی ہے۔
یہ دعوت جو آخرت میں باعث نجات ہے، یہی دنیا میں بھی عروج و ترقی کی ضامن ہے۔ یہ وہ بات ہے جو ہم اپنی قوم کو زندگی کی آخری سانس تک سمجھاتے رہیں گے۔ اس لیے کہ یہی انبیا علھیم السلام کا مشن ہے۔ اس کے علاوہ کوئی چیز انبیا کی دعوت ہے نہ ان کا مقصود۔