بیماری اور علامت ۔ ابویحییٰ
جو لوگ صحت و صفائی کے بنیادی اصولوں کا خیال نہیں رکھتے وہ جلد یا بدیر بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص ٹھنڈے موسم میں ٹھنڈے پانی سے نہائے اور پھر پنکھا کھول کر سوجائے تو اسے نزلہ بخار ہوجانا ایک فطری بات ہے۔
اس نزلے بخار میں ممکن ہے کہ مریض کے گلے میں تکلیف ہو، ممکن ہے سر میں درد ہو، مگر جب وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو وہ لاکھ اسے علامات بتائے، ڈاکٹر کی توجہ اصل مسئلے کی تشخیص پر رہتی ہے۔ چنانچہ وہ نزلے کی تشخیص کر کے اس کی دوا دے گا۔ گرچہ مریض کے اصرار پر فوری آرام کے لیے اسے درد وغیرہ کی دوا بھی دے دیتا ہے۔ مگر ڈاکٹر جانتا ہے کہ اصل مرض کی دوا نہیں دی گئی اور صرف درد کی دوا دے دی گئی تو تھوڑے آرام کے بعد درد پھر شروع ہوجائے گا۔
مسلمان امت بھی ایک جسد کی طرح ہے۔ ختم نبوت کے بعد اس روحانی جسد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ غیرمسلموں کو دین پہنچائے۔ اس کی ایک شکل یہ ہے کہ مسلمان دین حق کا پیغام دوسروں کو پہنچانا شروع کر دیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ مسلمان ایمان و اخلاق کی اس دعوت کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں جو قرآن مجید میں موجود ہے۔
جس وقت مسلمان یہ دونوں کام بند کر دیتے ہیں، وہ اپنے وجود اور اساس کی بنیادوں کو اپنے ہاتھوں سے منہدم کرنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ان پر مغلوبیت کی سزا ایسے ہی مسلط کی جاتی ہے جیسے صحت و صفائی کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں پر بیماری آتی ہے۔ مغلوبیت کی اس بیماری کے لوازم میں سے ہوتا ہے کہ مسلمان عزت سے محروم ہوتے ہیں۔ ان پر بے بسی طاری ہوتی ہے۔ اور وقفے وقفے سے ان کے مختلف گروہ بدترین سختیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
خدا کے اس قانون کی علمی اور تاریخی اساسات کو کسی نے سمجھنا ہے تو ہماری کتاب ’’آخری جنگ‘‘ کا مطالعہ کرسکتا ہے۔ اور اگر عملاً اس کا ظہور دیکھنا ہے تو چار دن کے کرنٹ افئیرز سے اوپر اٹھ کر پچھلی چند دہائیوں میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر غور کرنا چاہیے۔
موجودہ دور میں مسلمانوں پر پے در پے سختیاں آرہی ہیں۔ فلسطین، افغانستان، عراق، شام، پاکستان، ہندوستان، برما، چیچنیا، بوسنیا، کوسوو اور دیگر متعدد علاقوں میں لاکھوں مسلمان مارے گئے ہیں یا پھر جلاوطنی اور دیگر مصائب کا سامنا ہے۔ ان سختیوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ اصل مسئلہ نہیں، یہ علامات ہیں۔ اِس مرض کی ظاہری علامات کہ مسلمان مجموعی طور پر ایمان و اخلاق کے زوال کا شکار اور اپنی دعوتی ذمہ داریوں سے بالکل غافل ہیں۔
اب ایسے میں کبھی برما، کبھی شام اور کبھی کشمیر اور کبھی فلسطین کا ماتم شروع کر دیں تو ان کی مثال اس شخص کی سی ہوگی جو بیمار ہونے کے بعد اصل مرض کو ٹھیک کرنے کے بجائے صرف علامات یعنی درد کی دوا کھانا شروع کر دے۔ ہم نے شروع میں بیان کیا ہے کہ ہر اچھا ڈاکٹر اصل مرض کی تشخیص کر کے اس کی دوا لکھتا ہے۔ ہاں وقتی درد کے لیے کچھ گولیاں بھی دے دیتا ہے۔
ہمیں اگر اپنے مصائب سے نکلنا ہے، ذلت و رسوائی کی اس رات کو ختم کرنا ہے، دنیا کے مختلف علاقوں میں اگر ایک کے بعد ایک پیش آنے والے سانحات سے نجات پانا ہے تو پھر اصل مسئلے پر بات کرنا ہوگی۔ ایمان، اخلاق اور دعوت کی قرآنی صدا اور نبوی ماڈل کو اختیار کرنا ہوگا۔ لیکن اگر مسلمانوں نے وہی راستہ اختیار کیے رکھا جو یہود نے کیا تھا، یعنی سمجھانے والوں کی تکذیب کرنا تو پھر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ سلسلہ رکنے کا نہیں ہے۔
ہمیں معلوم ہے ہماری باتیں لوگوں کو پسند نہیں آتیں۔ اس لیے کہ غیرمسلموں کو گالی دینا اپنی اصلاح سے کہیں زیادہ آسان راستہ ہے۔ مگر امت اس راستے پر دو صدی سے چل رہی ہے اور کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ لیکن ایک دفعہ ہماری تشخیص کو مان لیں تو انشا اللہ بیس برس میں سب کچھ بدل جائے گا۔