بے ایمان پارسا قوم ۔ جاوید چوہدری
عمرے کا سیزن یکم محرم کو شروع ہوتا ہے، رمضان کی 25 تاریخ تک عمرے کے ویزے جاری ہوتے ہیں اور 15 شوال کو مکمل طور پر بند کر دیے جاتے ہیں یوں عمرے کا سیزن تقریباً نو ماہ جاری رہتا ہے، اس سال بھی یکم محرم (12 ستمبر) کو عمرے کا سیزن شروع ہوا اور اتوار 28 اکتوبر 2018ء (18 صفر المظفر) کو اس سیزن کو ایک ماہ اور 17 دن ہوگئے، سعودی حکومت نے ان 47 دنوں میں ساڑھے چھ لاکھ عمرہ ویزے جاری کیے، آپ شاید یہ جان کر حیران ہوں گے پوری دنیا میں عمرے کے سب سے زیادہ ویزے پاکستانیوں نے حاصل کیے۔
پاکستانیوں نے 47 دنوں میں ایک لاکھ 70 ہزار 8 سو 24 ویزے لیے، بھارت کا نمبر دوسرا تھا، انڈیا میں 19 کروڑ مسلمان ہیں، ان کے لیے 95 ہزار 7 سو 49 ویزے جاری ہوئے جب کہ ترکی نے سب سے کم 4 ہزار 6 سو 52 عمرہ ویزے لیے، یہ 47 دنوں کی صورت حال تھی، آپ اگر گزشتہ سال کے اعداد و شمار بھی دیکھیں تو آپ مزید حیران ہو جائیں گے، 2017ء میں پاکستان کے ایک لاکھ 79 ہزار 210 شہریوں نے حج اور 13 لاکھ لوگوں نے عمرے کی سعادت حاصل کی۔
ہم اگر عمرہ اور حج دونوں کو ملالیں تو یہ کل پونے پندرہ لاکھ لوگ بنتے ہیں اور یہ دنیا میں حج اور عمرے کی سب سے بڑی تعداد ہے، انڈونیشیا ہمارے بعد آتا ہے، 2017ء میں 8 لاکھ 75 ہزار 958 انڈونیشین مسلمانوں نے عمرے اور حج ادا فرمائے جب کہ انڈیا کے 5 لاکھ 24 ہزار 609 لوگوں نے یہ سعادت حاصل کی، پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے حج میں دوسرے نمبر پر آ رہا ہے، 2016ء میں بھی ہم دوسرے نمبر پر تھے، ہم نے ایک لاکھ 43 ہزار 368 لوگوں کے لیے حج کے ویزے حاصل کیے تھے جب کہ انڈونیشیا ڈیڑھ لاکھ حجاج کرام کے ساتھ پہلے نمبر پر تھا، یہ ایک صورتحال ہے، آپ اب دوسری صورت حال بھی ملاحظہ کیجیے۔
پاکستان بے ایمانی (کرپشن) میں 180 ممالک میں 117 نمبر پر آتا ہے، دنیا میں نیوزی لینڈ، ڈنمارک، فن لینڈ، ناروے، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، سویڈن، کینیڈا، لکسمبرگ، نیدرلینڈ اور برطانیہ ایمانداری میں پہلے دس نمبروں میں آتے ہیں جب کہ ٹوگو، آذربائیجان، جبوتی، قازقستان، لائبیریا، ملاوی، مالی، نیپال، مالدوا، گیمبیا، میانمار، سیرا لیون، ہنڈوراس، لاؤس اور پاپوا نیوگنی ہم سے زیادہ بے ایمان ہیں، ہم جہالت میں بھی 197ملکوں میں 143 نمبر پر ہیں، ہم تعلیم میں یونیسکو کے 120 رکن ملکوں میں 113 نمبر پرآتے ہیں، سری لنکا اور فلپائن جیسے غریب ملک بھی تعلیم میں ہم سے آگے ہیں، سری لنکا میں 92 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہیں اور یہ تعلیم یافتہ ملکوں میں نمبر 83 پر ہے جب کہ ہمارے اڑھائی کروڑ بچے آج بھی اسکول کی نعمت سے محروم ہیں، پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی بھی نہیں ملتا۔ عالمی ادارہ صحت نے 2016ء میں 184 ممالک میں پاکستان کو فضائی آلودگی میں چوتھا بدترین ملک قرار دیا تھا گویا 180 ملکوں کی فضا ہم سے صاف قرار دی گئی۔
پاکستان نائیجیریا اور افغانستان کے ساتھ ان تین ملکوں میں بھی شامل ہے جہاں پولیو ابھی تک موجود ہے، ہمارا ملک ہپاٹائٹس سی میں دنیا میں دوسرے، ٹی بی میں پانچویں، شوگر میں ساتویں اور گردے کے امراض میں آٹھویں نمبر پر ہے، ہمارے ملک میں ہر سال تین لاکھ لوگ دل کی بیماریوں کی وجہ سے انتقال کر جاتے ہیں، ہم دماغی امراض اور کینسر میں بھی خطرے کی لکیر پر کھڑے ہیں، ہم روڈ ایکسیڈنٹس میں بھی ٹاپ پر آتے ہیں اور ہم قتل، ڈکیتیوں، زنا بالجبر، لڑائی جھگڑوں، گندگی ،آلودہ پانی، اغواء برائے تاوان، بچوں اور خواتین کو ہراساں کرنے اور ناانصافی کے شکار ملکوں میں بھی سرفہرست ہیں، ہمارے ملک کی 52 فیصد آبادی بلڈ پریشر کی شکار ہے، ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں صدر اور وزیراعظم کو بھی خالص دودھ، خالص آٹا، خالص گوشت اور خالص دوائیں دستیاب نہیں ہیں، جس میں نمازی بھی گندے پانی سے وضو کرتے ہیں اور اسپتال میں بھی خالص آکسیجن نہیں ملتی، ہم پانی کی انتہائی کمی کے شکار پہلے تین ملکوں میں بھی شمار ہوتے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کے گردے چوری ہوجاتے ہیں، سرجن دل کے مریضوں کو جعلی اسٹنٹ لگا دیتے ہیں، ہم جعلی دواؤں میں بھی دنیا میں نمبر 13 پر ہیں، جنوری 2012ء میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں 100 سے زائد مریض غلط دوا کھانے سے مر گئے تھے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے اسپتالوں میں چوہے نومولود بچوں کو کھا جاتے ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کے مطابق ملک کی 32.6 فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے مطابق 10 بلین ڈالر ملک سے سالانہ منی لانڈر ہوجاتے ہیں اور نیب کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں روزانہ چھ سے سات ارب روپے کرپشن کی نذر ہوتے ہیں۔
آپ اگر ان اعداد و شمار کو ایک سائیڈ پر رکھ دیں اور خود تحقیق کرلیں تو بھی ثابت ہوگا ہمارے ملک میں چپڑاسی سے لے کر ایوان صدر تک پورا سسٹم کرپشن میں لتھڑا ہوا ہے، پولیس رشوت کے بغیر ایف آئی آر نہیں لکھتی، ایف آئی آر ہو جائے تو یہ رقم کے بغیر ملزم گرفتار نہیں کرتی اور یہ اگر ملزم گرفتار بھی کر لے تو بھی یہ دوسری پارٹی سے پیسے لے کرملزم کو بے گناہ قرار دے دیتی ہے، محکمہ مال پورے کا پورا کرپٹ ہے، وزیراعظم عمران خان کو بھی رشوت اور سفارش کے بغیر کوئی فرد نہیں ملے گا۔ نیب کی حالت پوری دنیا کے سامنے ہے، نظام عدل کے بارے میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کے اپنے تبصرے کافی ہیں۔ ہمارے ملک میں مسجدوں تک سے جوتے، پنکھے، ٹونٹیاں اور قالین چوری ہوجاتے ہیں۔
لوگ داڑھی رکھ کر مسجد کا چندہ، یتیموں کا مال اور بیواؤں کی کمائی کھا جاتے ہیں۔ پولیس نے فروری 2017ء میں راولپنڈی سے اشرف نام کا ایک مجرم پکڑا تھا، یہ دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد ظالم انسان تھا، یہ مختلف علاقوں میں خواتین سے شادی کرتا تھا، بچہ یا بچی پیدا کرتا تھا، یہ بچی یا بچہ بیچ دیتا تھا اور بیوی کو طلاق دے کر غائب ہو جاتا تھا، وہ پکڑے جانے تک آدھ درجن بچے بیچ چکا تھا۔ پاکستان میں اس وقت 80 لاکھ نشئی ہیں، ہم دنیا میں نشئیوں میں بھی اولین نمبروں پر آتے ہیں۔ آپ بازاروں اور محلوں میں بھی دیکھ لیں، آپ عموماً حاجی حضرات سے لٹیں گے، لوگ داڑھی رکھ کر آئیں گے، آپ ان کی پارسائی سے متاثر ہوں گے اور وہ آخر میں آپ کو لوٹ لیں گے، آپ کو لاکھوں لوگ پیروں، مبلغوں اور مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں بھی لٹتے ملیں گے، 2013ء میں مضاربہ سکینڈل آیا تھا، اس میں مفتی حضرات 9584 لوگوں کو لوٹ کر فرار ہوگئے، یہ ساڑھے چھ ارب روپے کا سکینڈل تھا، ڈبل شاہ خود کو سید زادہ کہتا تھا، وہ سید بن کر 2158 لوگوں کو لوٹ کر کھا گیا۔
آپ اب تک جانوروں کی آنتوں اور چربی سے گھی، لکڑی کے برادے سے مرچیں، کالے چنے سے کالی مرچ اور عام بادام کو تیزاب میں بھگو کر کاغذی بنانے کی درجنوں کہانیاں سن چکے ہوں گے، آپ کو گندے نالے میں سبزی دھونے، کیپسول میں آٹا ڈال کر بیچنے اور ڈٹرجنٹ پاؤڈر سے دودھ بنانے کے واقعات بھی ازبر ہوچکے ہوں گے، میں نوجوان صحافی اقرار الحسن اور فوڈ ایکسپرٹ محسن بھٹی کو داد دیتا ہوں، ان دونوں نے پورے ملک کی آنکھیں کھول دیں، آپ نیک لوگوں کے اس ملک میں منرل واٹر خریدیں وہ جعلی نکلے گا، ادویات لیں وہ غیر معیاری ہوں گی، آپ اسپتال چلے جائیں ڈاکٹر کھانسی کو ٹی بی بنا کر آپ کا پیٹ کھول دیں گے، گھی خریدیں وہ چربی نکلے گا۔
دالیں، سبزی، گوشت اور آٹا چاول لیں وہ غیر معیاری اور دو نمبر ہوں گے، آپ بچے کو اسکول داخل کرا دیں فیس پچاس ہزار ہوگی لیکن بچہ سارا دن کھیل کود کر واپس آجائے گا اور آپ مسجد جائیں گے تو جوتا، پرس اور موبائل گنوا بیٹھیں گے۔ آپ خود سوچیے جس ملک میں جنازے کے دوران لوگوں کی جیبیں کٹ جائیں اور جس میں حکومت کے پاس مینڈیٹ جعلی ہو اور پائلٹوں، وکیلوں، ڈاکٹروں، ججوں اور ارکان پارلیمنٹیرین کی ڈگریاں نقلی ہوں اس میں باقی کیا بچ جاتا ہے؟
میں جب بھی حجوں اور عمروں کی تعداد دیکھتا ہوں اور پھر دوسری طرف قوم کی حالت دیکھتا ہوں تو میں کنفیوز ہوجاتا ہوں، مجھے سمجھ نہیں آتی میں اپنی قوم کو پرہیز گار سمجھوں یا پھر بے ایمان، آپ ایک طرف پارسائی ملاحظہ کیجیے خانہ کعبہ کے ہر طواف اور مسجد نبوی کی ہر نماز میں پاکستانی ضرور ہوتے ہیں، ہماری آدھی سے زائد آبادی باریش ہے، ہم گرین بیلٹس، پارکس اور راستوں میں بھی مسجدیں بنا لیتے ہیں، نمازی سڑک تک صفیں بچھا لیتے ہیں، اذان کی آوازیں دس دس منٹ تک آتی رہتی ہیں، ہم گھنٹہ گھنٹہ خطبے سنتے اور سناتے ہیں، ہماری تدفین کی رسومات بھی چالیس چالیس دن چلتی ہیں، ہمارے ملک میں دس محرم اور بارہ ربیع الاول کو قومی تعطیل ہوتی ہے اور پورے پورے شہر فوج کے کنٹرول میں چلے جاتے ہیں۔
مسجد مانسہرہ میں بنتی ہے لیکن چندہ کراچی میں مانگا جاتا ہے مگر دوسری طرف ہم دنیا کی بے ایمان ترین قوموں میں بھی شمار ہوتے ہیں، پاکستان میں کوئی ایک پراڈکٹ، کوئی ایک ادارہ اور کوئی ایک ایسا شخص نہیں ہم جس کی ایمانداری، اخلاص اور خالص ہونے کی قسم کھا سکیں، ہم حلف نامے بھی جھوٹے جمع کراتے ہیں اور عدالتوں میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔ چنانچہ ہم اصل میں ہیں کیا؟ ہم پارسا ہیں یا بے ایمان، میں اکثر کنفیوز ہو جاتا ہوں، میرے دوست اینکر پرسن رحمان اظہر نے ایک دن پنجابی فلم کالا چور کا ایک ڈائیلاگ سنایا تھا۔
فلم میں سلطان راہی جج کو کہتا ہے ظلم ہوئے 24 گھنٹے تے عدالت لگے صرف آٹھ گھنٹے، اے کیسا انصاف ہے جج صاحب،، ہم بھی من حیث القوم ایسے ہی کالے چور ہیں، ہم لوگوں کی انتڑیوں میں ہیروئن بھر کر پیسہ کماتے ہیں اور اس پیسے سے عمرے کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں، ہم عمرے اور حج میں پہلے نمبر پر ہیں اور ایمانداری میں 117 نمبر پر، واہ ہم بھی کیا لوگ ہیں، حج اور عمرے بھی جاری ہیں اور بے ایمانی کا تنور بھی خوب گرم ہے، پاکستان زندہ باد۔