بنی اسرائیل اور مسلمان ۔ ابویحییٰ
(تیسری تحریر)
[یہ تحریر بھی ایک خط ہے جو بنی اسرائیل کی تاریخ کے کچھ واقعات کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں لکھا گیا۔ یہ واقعات میری کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ میں بعض مقامات پر بیان کیے گئے تھے۔]
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے۔ میری کتاب ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ کے بارہویں باب یعنی ’’بنی اسرائیل اور مسلمان‘‘ کے بارے میں آپ کے سوالات کچھ بنیادی غلط فہمیوں پر مشتمل ہیں۔ میں کوشش کروں گا کہ یہ غلط فہمیاں دور ہوجائیں۔
آپ کے اس سوال کے جواب میں کہ میرے ان بیانات کا اصل ماخذ کیا ہے، میں یہ عرض کروں گا کہ ان کا ماخذ سر تا سر قرآن مجید ہے۔ قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل کی آیت چار اور پانچ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب میں اپنے اس فیصلے سے آگاہ کر دیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فساد مچاؤ گے اور بہت سر اٹھاؤ گے۔ پس جب ان میں سے پہلی بات کی میعاد آجاتی ہے تو ہم تم اپنے زورآور بندے مسلط کر دیتے ہیں تو وہ گھروں میں گھس پڑے اور شدنی وعدہ پورا ہوکے رہا۔‘‘
قرآن مجید نے بنی اسرائیل کو یہ بات مخاطب ہوکر کہی تھی مگر تفصیل سے اس لیے صرف نظر کیا کہ یہ ان کی تاریخ کے معلوم واقعات ہیں۔ ان کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا جیسے ہمارے ہاں لوگ ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی سے واقف ہیں۔ تاہم ہمارے بڑے مفسرین جب اس مقام پر پہنچتے ہیں تو بنی اسرائیل کی تاریخ اور ان کے انبیا کے صحیفوں سے وہ پوری تفصیل بیان کرتے ہیں، جسے قرآن مجید نے دو جملوں میں بند کر دیا ہے۔
قدیم مفسرین کے ہاں اس کی تفصیل دیکھنی ہے تو تفسیر ابن کثیر سے رجوع کیجیے یا پھر تاریخ ابن کثیر کو دیکھیے جہاں ان تمام واقعات کی بڑی تفصیل کی گئی ہے۔ اگر اس تفصیل کے ساتھ اس دور کے انبیاء کی تنبیہات کو بھی پڑھنا ہے تو مولانا مودودی کی تفہیم القرآن یا پھر مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کی قصص القرآن کا مطالعہ کیجیے جس میں وہ دیگر انبیا کے ساتھ بخت نصر (جس کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر خدائی عذاب نازل ہوا) کے ہم عصر نبی حضرت یرمیاہ علیہ السلام کے مواعظ بھی نقل کیے گئے ہیں۔ ان آیات میں کی گئی صراحت اور ان مفسرین کی بیان کردہ تفصیلات کے بعد یہ بات کہنا کہ اس یرمیاہ بنی کا نام ہمیں قرآن و حدیث میں دکھاؤ ورنہ ہم نہیں مانیں گے، صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ اعتراض کرنے والا نہ قرآن مجید سے واقف ہے، نہ اصول تفسیر کو سمجھتا ہے اور نہ کسی بڑے عالم کی تفسیر اس نے زندگی میں کبھی پڑھی ہے۔
میں نے یہ تفصیلات پہلے دفعہ بیس برس قبل ڈاکٹر اسرار مرحوم کی مجلسوں میں بیٹھ کر سمجھی تھی۔ یہ تمام تقریریں اب تحریری شکل میں موجود ہیں۔ میں ذیل میں صرف ایک تقریر کا اقتباس نقل کر رہا ہوں جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کیا بات فرمائی تھی۔
’’بنی اسرائیل کی تاریخ کے اس دو ہزار سالہ دور کا جو نئی امت مسلمہ یعنی امت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی سبق آموزی اور عبرت پذیری کے لیے کافی تھا‘ کمالِ فصاحت اور غایت اختصار کے ساتھ قرآن حکیم میں سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کی چھ (2 تا 7) اور آخری رکوع کی چار(101 تا 104) یعنی کُل دس آیات میں بیان کر دیا گیا ہے جس کا لبّ لباب یہ ہے کہ قرآن حکیم کے نزول کے زمانے تک بنی اسرائیل پر چار دور گزر چکے تھے: دو دَورعروج کے جن کے دوران ان کا طرز عمل بھی دینی و اخلاقی اعتبار سے درست رہا اور انہیں دنیا میں عزت و سربلندی بھی حاصل رہی اور وہ کثرتِ اموال و اولاد کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات سے بھی بہرہ ور ہوتے رہے۔ اور دو ہی دور زوال کے جن کے دوران انہوں نے نفس پرستی اور بغاوت کی روش اختیار کی جس کے نتیجے میں ان پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور غیر اقوام کے ہاتھوں وہ خود بھی ذلیل و خوار اور مفتوح و مغلوب ہوئے اور ان کے دینی و روحانی مرکز یعنی ہیکلِ سلیمانی کی حرمت بھی پامال ہوئی۔ تاہم اگر اس کی کسی قدر وضاحت تاریخی اور زمانی تربیت کے ساتھ کی جائے تو وہ حسب ذیل ہے:
1) ان کے پہلے دور عروج کا آغاز حضرت موسی علیہ السلام کے خلیفۂ اوّل حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کی فتح سے ہوا اور تقریباً تین سو سال تک نشیب و فراز کے مراحل طے کرتا ہوا یہ دور سعادت حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے عہد حکومت میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا جو تاریخ بنی اسرائیل کے عہد زریں کی حیثیت رکھتا ہے۔
2) حضرت سلیمان علیہ السلام کے انتقال کے ساتھ ہی ان کے پہلے دور زوال کا آغاز ہوگیا‘ اس لیے کہ فوراً ہی سلطنت دو حصوں میں منقسم ہوگئی۔ بہر حال تقریباً تین سو سال ہی میں عہد زوال بھی اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ چنانچہ اولاً شمال سے آشوریوں نے شمالی سلطنت اسرائیل کو تاخت و تاراج کیا اور بالآخر587 قبل مسیحؑ میں مشرق (عراق) سے آنے والے بخت نصر (Nebukadnezar) کے حملے نے نہ صرف یہ کہ پوری جنوبی سلطنت یہود یہ کو تہس نہس کرکے رکھ دیا بلکہ یروشلم کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، لاکھوں افراد کو قتل کیا، چھ لاکھ یہودی مردوں عورتوں اور بچوں کو بھیڑوں اور بکریوں کے گلوں کی طرح ہانکتا ہوا بابل لے گیا۔۔۔۔۔۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہیکل سلیمانی کو کلیۃً مسمار کردیا۔ حتیٰ کہ اس کی بنیادیں تک کھود ڈالیں!۔۔۔۔۔۔ بابل کی لگ بھگ سو سالہ اسیری کا دور بنی اسرائیل کی ذلت و رسوائی کا شدید ترین زمانہ ہے۔
(صفحہ نمبر29-30) (بحوالہ کتاب: سابقہ اور موجودہ مسلمان امتوں کا ماضی، حال اور مستقبل اور مسلمانان پاکستان کی خصوصی ذمہ داری۔ ڈاکٹر اسرار احمد)
مذکورہ بالا تحریر اور خاص کر خط کشیدہ الفاظ کو دوبارہ پڑھیے جو خلاصے کہ حیثیت رکھتے ہیں اورمجھے صرف یہ بتا دیجیے کہ میں نے اس سے مختلف کیا بات لکھی ہے۔ یہ بھی ڈاکٹر اسرار مرحوم ہی کا موقف ہے جسے انہوں نے پوری قوت سے پیش کیا کہ بنی اسرائیل جس طرح دو دفعہ عذاب کی زد میں آئے اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ ہوا اور اس وقت بھی مسلمان حالت عذاب میں ہیں، (وہ کہتے ہیں، ’’اس وقت ہم بحیثیت امت عذاب الہی کی گرفت میں ہیں۔‘‘، حوالہ بالہ صفحہ13)۔ جس کتاب کا میں نے حوالہ دیا ہے اس کا موضوع ہی یہی ہے۔
امید ہے کہ آپ کے اشکالات دور ہوگئے ہوں گے۔
ابو یحییٰ