بدبو ۔ فرح رضوان
کچھ عرصے سے شاہدہ آنٹی سے بات کر کے محسوس ہونے لگا کہ گویا دنیا اچانک سے پر سکون ہو گئی تھی اور اس میں بسنے والے لوگ عزت کے قابل!!! تو جب اس تبدیلی کی بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہ دی تو شازیہ نے خود ہی ان سے اس کا سبب پوچھ ڈالا اور جواب میں انتہائی انوکھی بات سننے کو ملی، انہوں نے بتایا کہ ’’بیٹا! تمہارے انکل کو حکیم صاحب نے دیسی انڈے کھانے کے لیے کہا ہے۔ اگلے دن ہم سب ہی کچن میں موجود تھے اور میں جلدی جلدی سب کو ناشتہ بنا کر دے رہی تھی، امی کے لیے آملیٹ بنانے کے لیے انڈہ توڑا….تو وہ گندہ نکلا…..اور تم تصور نہیں کر سکتی بیٹا کہ اس میں کس قدر بھیانک بدبو تھی، اتنی بو کہ اگلے چند لمحوں میں ہم سب کا وہاں ٹھہرنا، یہاں تک کہ سانس لینا دشوار ہوگیا اور سب کے سب بڑی بڑی ابکائیاں لیتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کو وہاں سے تلف کرنا ہی تھا اور مجھے ہی کرنا تھا سو میں ہمت کر کے واپس کچن میں گئی تاکہ جس پیالے میں انڈہ توڑا تھا اسے اٹھا کر باہر لے جاؤں لیکن چند سیکنڈ میں اس بو سے اعصاب شل ہوتے دکھائی دیے تو پلٹ کر واپس آئی اور پھر ناک اور مونہہ پر خوب موٹا سا ڈھاٹا باندھ کر اس پیالے کو اٹھایا اور سیدھے اپنے چھوٹے سے باغیچے کا رخ کیا، لیکن یقین کرو کہ وہ تمام پرندے جو چاول کے چند دانے اور روٹی کے ذرا سے ٹکڑے ڈالتے ہی نہ صرف جمع ہو جاتے بلکہ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں سب کے سب اس کی بو سے دور جا کر بیٹھ گئے، بو اتنی شدید تھی کہ پھر مجھے فوری طور پر ننھا سا گڑھا کھود کر اس انڈے کو دفنانا پڑا۔‘‘
دو دن گزر گئے لیکن گھر کے تمام افراد کا حال یہ تھا کہ ان کے ذہن میں وہ بو بس گئی تھی، شازیہ نے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا کہ ’’آنٹی جب ان کا یہ حال تھا تو آپ کا کیا حال ہوا ہو گا،‘‘
وہ کہنے لگیں ’’حال تو تم سمجھ ہی سکتی ہو، ساتھ ہی دو لفظ میری چڑ بن گئے تھے ایک انڈہ دوسرا بدبو، اور سب نے مل کر میرا خوب ریکارڈ لگایا کہ جن انڈوں کے صحیح سالم لانے پر میں خود پر اتنا فخر اور باقی سب کو نصیحت کیے جا رہی تھی وہ "stink bomb” ثابت ہوا۔‘‘
وہ کچھ دیر کو رکیں پھر جب بات شروع کی تو اچانک ہی ان کی آواز بھرّا گئی اور آنکھیں نم ہوگئیں۔ بولیں کہ ’’اتفاق کی بات کہہ لو۔ ۔ ۔ یا میرے رب کی مجھ ناچیز کے لیے پلاننگ، کچھ ہی روز قبل میری دوست مینو کے سسر کا انتقال ہوا تھا، نئی جاب کی وجہ سے وہ اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی کہ لوگ اپنی سہولت کے حساب سے بار بار ان کے گھر تعزیت کے لیے آتے رہیں، تو اس نے اپنے گھر ایک درس رکھ کر تمام لوگوں کو اس میں مدعو کرلیا، میں اس روز کسی وجہ سے بہت ہی لیٹ ہوگئی، جب پہنچی تو سب خاموشی اور انہماک سے درس سن رہے تھے، میں نے جہاں سے سننا شروع کیا ان الفاظ نے ڈائریکٹ میرے دماغ کو سٹرائیک کیا اور پھر وہیں سے رستہ بناتے میرے دل میں اتر گئے، درس دینے والی خاتون کہہ رہی تھیں کہ ’’انسان جب مرتا ہے تو پہلے اس کی روح کی حاضری اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہوتی ہے فرشتے روح کو لیکر آسمانوں کی جانب سفر کرتے ہیں تو جو نیک روح ہوتی ہے اس کی خوشبو کی وجہ سے اسے وہاں موجود دوسرے فرشتے بھی ویلکم کرتے ہیں خدا کی بارگاہ میں اس کی بڑی پزیرائی ہوتی ہے، اور واپسی پر قبر میں ایک کھڑکی جنت کی جانب کھول دی جاتی ہے، جبکہ ایسا شخص جو گھمنڈی ہو مغرور ہو تعصبی ہو، بد اخلاق بد کردار ہو تقویٰ کبھی چھو کر نہ گزرا ہو اس کی زندگی میں، نام مسلمان کا ہو لیکن کام شیطان کے کرتا ہو تو ایسے شخص کی روح جب فرشتے لے کر جا رہے ہوتے ہیں تو اس تمام راستے پر موجود دیگر فرشتے اس کی بو کی وجہ سے اس سے شدید کراہیت و نفرت کا اظہار کرتے ہیں، ذلت اس کا مقدر ٹھہرتی ہے، اسے زمین پر دے مارا جاتا ہے اور اس کی قبر میں ایک کھڑکی دوزخ کی طرف کھول دی جاتی ہے، اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ وہ کیا بتاتی رہیں کیونکہ میرا ذہن catch word ’’شدید بدبو‘‘ پر اٹک کر اسی کے گرد گھومنا شروع ہوگیا تھا۔
کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوئیں۔ ’’کیا شان ہے میرے رب کی کہ لہسن پیاز جیسی بو پھیلانے والی سبزیوں پر لگا باریک سا چھلکا ان کی بو کو ہر سو پھیلنے سے روکے رکھتا ہے، اور وہ انڈا جو میں نے گھر لانے کے دوسرے دن توڑا تھا وہ محض ایک دن پہلے تو ہرگز خراب نہ ہوا ہو گا لیکن ایک باریک سے چھلکے کی وجہ سے وہ کتنا اجلا اور ستھرا اور بھلا دکھائی دے رہا تھا، کیا ستّاری ہے میرے کریم پروردگار کی کہ، وہ ہمارے بھی تمام عیبوں پر پردہ ڈالے رکھتا ہے، اور ہمارا حال وہی ہوتا ہے جو میرا تھا، کہ بظاہر صحیح سالم انڈے لانے پر میں کتنا اترا رہی تھی، فخر جتا رہی تھی، مطمئن تھی، ایسے ہی تو ہم اپنے نیک اعمال پر مطمئن رہتے ہیں جبکہ وہ قبول ہوئے یا نہیں ہم نہیں جانتے، درست ادا ہوئے یانہیں ہم نہیں جانتے، کسی کی غیبت کرنے اس کا حق مارنے، اپنے نفس اپنی زبان کے شر کی وجہ سے ہمارے اکاؤنٹ میں رہے یا نہیں ہم نہیں جانتے، نیکیاں دکھاوے کے لیے کیں تو رائیگاں، اپنی نعمتوں رزق یا نیکیوں پر تکبر کیا تو سراسر بربادی کا سودا کیا۔
جبکہ دوسری جانب جن کی غلطیوں کو ہم گناہ کبیرہ بنا ڈالتے ہیں وہ اگر اپنی کوتاہیوں پر سچی توبہ کر لیتے ہوں تو ان کا مقام نہ جانے کیا ہوتا ہوگا۔‘‘ آنٹی بے تکان بولے جا رہیں تھیں اورشازیہ سوچ رہی تھی کہ کبھی کبھی کسی، درسگاہ، کتاب یا کسی استاد سے ہم وہ سبق نہیں سیکھ پاتے جو زندگی کے چھوٹے چھوٹے اتفاقات، حادثات و واقعات ہمیں سکھا دیتے ہیں، بس غور کرنے کی عادت، اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے باقی اسباب تو اللہ تعالیٰ ہی مہیا فرماتا ہے نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی تمام توفیق بھی اسی کے کرم سے ہے۔