ایوارڈز کی آخری تقریب ۔ محمد جاوید
ہمارے معاشرے میں مختلف ٹی وی چینلز پر نشر کی جانے والی ایوارڈز کی تقریبات بہت مقبول ہیں۔ ایوارڈز کی یہ تقریبات تمام شعبہ ہائے زندگی سے متعلق ہوتی ہیں۔ عوام میں عام طور سے زیادہ مشہور تو فلم انڈسٹری سے وابستہ تقریبات ہیں لیکن مختلف کھیل، علوم و فنون اور سماجی خدمات کے حوالے سے بھی علاقائی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کثرت سے ایسی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ایوارڈز کی ایسی تقریبات بچپن سے ہی ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں۔ سکولوں میں ہر سال ہونے والی Prize Distribution Ceremonies اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
ایوارڈز کی ایسی تقریبات جو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر منعقد کی جاتی ہیں ان میں جو چیز انتہائی اہمیت کی حامل ہے وہ ان کا شان و شوکت کے مختلف پہلوؤں سے مزین ہونا ہے۔ اسٹیج کو شاندار طریقے سے سجایا جاتا ہے۔ رنگ و نور کا اہتمام ایسا دلفریب ہوتا ہے کہ دیکھنے والا دم بخود رہ جاتا ہے۔ مہمانوں کی آرام و آسائش کی خاطر طرح طرح کے بندوبست کیے جاتے ہیں۔ ان کی مہمان نوازی کے لیے لذیذ کھانوں اور مشروبات کا وسیع انتظام ہوتا ہے اور پھر انعام جیتنے والوں کی حتمی عزت افزائی کے لیے ان کے شعبے سے وابستہ ایسی قد آور شخصیات کو مدعو کیا جاتا ہے جن کے ہاتھوں سے ایوارڈ پانا بذات خود ایک بڑے اعزاز کے مترادف ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی اچھی خدمت یا کام کے صلے میں اس دنیا میں ایسی کسی تقریب میں ایوارڈ حاصل کرنا بڑی کامیابی ہے لیکن ایک حقیقت جس کا ادراک بہت ضروری ہے وہ یہ کہ ایوارڈ کی ایک ایسی تقریب بھی عنقریب منعقد ہونی ہے جو اپنی شان و شوکت، جمال و کمال اور خوبصورتی اور رعنائی میں بے مثل ہوگی۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ اس کائنات میں ایوارڈز کی آخری تقریب ہوگی۔ جس کو وہاں ایوارڈ مل گیا وہ ہمیشہ کے لیے باعزت ہوگیا اور جو وہاں ایوارڈ سے محروم رہا وہ ہمیشہ کے لیے خسارے میں رہ گیا۔
اس دنیا کی ایوارڈز کی تقریبات تک لوگوں کی ایک قلیل تعداد ہی پہنچ پاتی ہے۔ اس دنیا کی بے شمار رکاوٹیں، حادثات، نا موافق حالات اور مجبوریاں بہت سے لوگوں کی راہ کی رکاوٹ بن جاتی ہیں اور وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کر پاتے۔ اس دنیا کی ایسی تقریبات کا عارضی پن بھی واضح ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بڑی حقیقت ہے کہ دنیا میں منعقدہ یہ تقریبات انسانی شرف اور محاسن کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کر ہی نہیں سکتیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ دنیا میں موجود سارے انسانوں کی صلاحیت کا تجزیہ کر کے یہ بتا سکے کہ کون شخص کس خوبی کی بناء پر کس انعام کا اصل حق دار ہے۔
لیکن اس کے برعکس ایوارڈز کی یہ آخری تقریب تمام علتوں سے پاک ہوگی۔ اس تقریب کی میزبانی اس کائنات کے فیض رساں رب کے ذمے ہوگی اور وہاں کا انتظام اس کے برگزیدہ فرشتوں کے ماتحت ہوگا۔ آرائش و جمال کا جو نظارہ وہاں انسانوں کی آنکھوں کی زینت بنے گا اس کا کوئی ادنیٰ سا موازنہ بھی دنیا کی کسی بڑی سے بڑی تقریب سے نہیں کیا جاسکتا۔
ایوارڈز کی اس آخری تقریب میں ایوارڈز کی کوئی کمی نہ ہوگی اس لیے کے وہاں جس ذات نے یہ ایوارڈز بانٹنے ہیں اس کے خزانے بھی لامحدود ہیں اور اس کی عطا بھی بے حساب ہے۔ اس لیے صرف یہی نہیں کہ چند سرکردہ لوگوں کو ہی ایوارڈ دیے جائیں گے بلکہ وہاں تو رائی کے دانے کے برابر نیکی بھی میزان میں رکھی جائے گی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو عزت و احترام اور شرف و جاہ وہاں ایوارڈ پانے والوں کے حصے آئے گا وہ ابدی اور دائمی ہوگا۔
ایوارڈز کی یہ آخری تقریب جس کے بعد کوئی اور تقریب کبھی نہ ہوگی بہت جلد منعقد ہونے کو ہے۔ اس تقریب کے میزبان کی طرف سے بھیجے گئے جلیل القدر پیغمبر انسانیت کو اس تقریب سے آگاہ کرتے رہے ہیں۔ آخری مرتبہ اس کا اعلان سب سے بڑے پیمانے پر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔
وقت تیزی سے گزرتا جا رہا ہے اس سے پہلے کہ مہلت ختم ہوجائے، آئیے ہمت کریں۔ ایوارڈز کی اس آخری تقریب میں اپنے لیے ہمیشہ کی عزت اور سرفرازی کے کسی ایوارڈ کے لیے خلوص دل سے کوشش کریں۔ دنیا کے ایوارڈز بہرحال عارضی ہوتے ہیں اور ایک لمبی، پیچیدہ اور جان گسل محنت کا تقاضا کرتے ہیں لیکن یقین رکھیں کائنات کی اس آخری تقریب میں ایوارڈ پانا نسبتاً آسان ہے۔ قرآن وہاں ایوارڈ پانے کے طریقے کو سادہ لفظوں میں یوں بیان کرتا ہے۔
بیشک وہ لوگ جو اپنے رب کی خشیت سے ہر وقت ترساں رہتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں اور وہ لوگ جو اپنے رب کا کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے اور وہ لوگ جو دیتے ہیں تو جو کچھ دیتے ہیں اس طرح دیتے ہیں کہ ان کے دل ڈرے ہوئے ہوتے ہیں کہ انہیں خدا کی طرف پلٹنا ہے۔ یہ لوگ ہیں جو بھلائیوں کی راہ میں سبقت کر رہے ہیں اور وہ ان کو پا کر رہیں گے اور ہم کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اور ہمارے پاس ایک رجسٹر ہے جو بالکل ٹھیک ٹھیک بتا دے گا اور ان کی ذرا بھی حق تلفی نہ ہوگی۔ (سورۃ المؤمنون آیت 58 تا 62)