آرنلڈ شیوازنگر کا سبق ۔ ابویحییٰ
آرنلڈ شوازنگر کا شمار ہالی وڈ کے مقبول ترین فنکاروں میں ہوتا ہے۔ آسٹریا سے تعلق رکھنے والے آرنلڈ 30 جولائی 1947 میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز ایک باڈی بلڈر کے طور پر کیا اور کئی بین الاقوامی اعزازات حاصل کیے۔ 1968 میں وہ امریکہ آئے۔ باڈی بلڈنگ کے ساتھ انہوں نے فلموں میں آنے کی تگ و دو شروع کر دی۔ 1970 میں انہیں ایک فلمHercules in New York میں کام کرنے کا موقع ملا۔ تاہم ان اصل شہرت 1984 میں منظر عام پر آنے والی فلم The Terminator کے ذریعے سے ہوئی۔ پھر اس میدان میں انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
فلمی دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد انہوں نے سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔ یہاں بھی تقدیر ان پر مہربان رہی اور فلم کا ہیرو سیاست کے میدان میں بھی ہیرو بن گیا۔ اکتوبر 2003 میں امریکہ کی ریاست کیلیفورنیا کی گورنری کا تاج ان کے سر سج گیا۔ اس وقت وہ کیلیفورنیا کے گورنر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور 2007 میں ہونے والے انتخابات میں بھی اس عہدے کے لیے میدان میں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حال ہی میں آرنلڈ کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ آرنلڈ نے موٹر سائیکل کا لائسنس بنوانے کا ارادہ کیا۔ وہ آخرکار اس مقصد میں کامیاب ہوگئے مگر اس کے لیے انہیں چھ مہینے تک مختلف عملی اور تحریری امتحانات سے گزرنا پڑا۔
اہل پاکستان کے لیے یقینا یہ ایک انتہائی عجیب و غریب خبر ہے۔ اس لیے کہ ہمارے ملک میں کسی گورنر کو اول تو کسی قسم کے لائسنس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ضرورت پیش آجائے تو امتحان سے گزرنا تو دور کی بات ہے، متعلقہ ڈپارٹمنٹ کا اعلیٰ ترین افسر اس کی خدمت میں پیش ہوکر لائسنس اس کے قدموں میں رکھ دے گا۔ معاملہ صرف لائسنس بنوانے تک ہی محدود نہیں، زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، حکمران طبقے کے لیے ہمارے ملک میں کوئی قانون نہیں ہوتا۔ ان کے لیے ہر جگہ ہر قانون معطل کر دیا جاتا ہے۔ تاہم معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں حکمرانوں نے اپنے لیے یہ انداز پسند کرلیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حکمرانی Rule of Law کو کبھی ایک معاشرتی قدر کے طور پر پیش ہی نہیں کیا گیا۔ یہی سبب ہے کہ بظاہر لوگ اس طرح کے واقعات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں مگر جیسے ہی انہیں موقع ملتا ہے وہ خود بھی اسی طرح قانون کو پامال کرتے ہیں۔ آپ دیکھ لیجیے کہ عوام کی خدمت کا نعرہ لگانے والے لوگوں سے لے کر اسلام کے نام پر منتخب ہونے والے لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے لیے اسی طرح قانون معطل ہوجاتا ہے جس طرح ایک فوجی حکمران کے لیے ہوجاتا ہے۔
یہی معاملہ عوام الناس کا ہے۔ انفرادی طور جب کبھی اور جتنا کبھی انہیں اختیار ملتا ہے وہ یہی پسند کرتے ہیں کہ انہیں قانون کی پاسداری نہ کرنی پڑے۔ چونکہ حکمران قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اختیار رکھتے ہیں اس لیے ان کے لیے بڑا آسان ہوتا ہے کہ وہ قانون کو جب چاہیں اپنے لیے معطل کر دیں۔ عوام کو یہ اختیار کم کم ملتا ہے مگر جب کبھی ملتا ہے ان کا رویہ حکمرانوں سے قطعاً مختلف نہیں ہوتا۔ یہی وہ رویہ ہے جسے ہم قانون کی حکمرانی کا ایک قدر کے طور پر موجود نہ ہونے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
دنیا میں کوئی قوم قانون کی پاسداری کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب فیصلہ فرد کی حیثیت کی بنیاد پر نہیں ہوگا بلکہ اصول اور ضابطہ پر ہوگا۔ قانون کی حکمرانی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب کمزور بھی طاقتور کے برابر کا مقام رکھتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو معاشرے میں فساد کو پھیلنے سے روکتی ہے۔ اس لیے کہ فساد اصل میں طاقتور لوگ پھیلاتے ہیں۔ قانون کی حکمرانی ان کی طاقت کو محدود کر دیتی ہے۔
زندہ قومیں جس قدر کو معاشرے میں سب سے پہلے عام کرتی ہیں وہ یہی رول آف لا ہے۔ ہمیں اگر اپنے ملک میں سے ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا ہے تو اس کے لیے رول آف لا کو سب سے بڑا مقام دینا ہوگا۔ اس کے بغیر امن اور انصاف کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔