اپنی جاگیر ۔ ابویحییٰ
پچھلے دنوں ادارہ انذار کے ذمے داروں کا ایک اجلاس ہوا۔ اس اجلاس میں اپنے رفقا سے میں نے یہ عرض کیا کہ میں نے یہ ادارہ ابویحییٰ کے کاموں کے فروغ کے لیے نہیں بنایا۔ اس لیے اس ادارے کو میرے لیے نہیں بلکہ معاشرے میں سچے ایمان اور اس کے بنیادی تقاضے یعنی اعلیٰ اخلاقیات کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ہمیں معقولیت، صبر، مثبت انداز فکر جیسی اقدار کے لیے کام کرنا چاہیے نہ کہ کسی فرد یا شخصیت کے لیے۔ ایمان، اخلاق اور اعلیٰ اقدار کے فروغ کے لیے جو بھی کام کر رہا ہو، آپ بلا تعصب اس کا کام آگے پھیلائیں۔ اس لیے کہ بندہ مومن کی اصل وابستگی تو اللہ اور اس کے رسول سے ہونی چاہیے نہ کہ کسی انسان سے۔
مذہبی اداروں اور تنظیموں کا یہ بنیادی المیہ ہے کہ ان کے دستور میں جو کچھ بھی لکھا ہے، عملی تربیت ایسی ہوتی ہے کہ لوگ عملاً کسی خاص شخصیت کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔ وہ شخصیت مر جاتی ہے تو اس کا تخلیق کردہ لٹریچر اور اسی کے مطابق ڈھلی ہوئی شخصیات اس کی جگہ لے لیتی ہیں۔ یہی چیز کچھ عرصے میں سخت قسم کے گروہی تعصبات اور نفرت و عداوات پھیلانے کا سبب بن جاتی ہے۔
یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کوئی بڑا عالم یا داعی کسی کام کا آغاز کرتا ہے۔ لوگ اس عالم اور اس کے کام سے متاثر ہو کر اس کے گرد جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ خود ہی نہیں آتے بلکہ اپنے ساتھ ہر طرح کا عملی اور مالی تعاون ساتھ لاتے ہیں۔ اب اس شخصیت، ادارے اور تنظیم کا مفاد اسی میں ہوتا ہے کہ جو لوگ آگئے ہیں وہ کہیں اور نہ جائیں۔ یہ لوگ گویا کہ اس فرد یا ادارے کی جاگیر ہوتے ہیں جسے ہر قیمت پر اپنے پاس رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
اب ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنی بات کو آخری حق اور اپنے کام کو دین کے واحد مطلوبہ کام کے طور پر پیش کیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ دوسروں پر تنقید کر کے ان کی صرف خامیاں نکال کر انہیں غیر معتبر بنانا بھی اس کام کا لازمی حصہ بن جاتا ہے۔ کوئی اورآدمی اگر اپنے کچھ لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ ہمارے عتاب اور غیض و غضب کا نشانہ بن جاتا ہے۔ پھر اسے فتنہ قرار دے کر اس کی بیخ کنی کی مہم شروع کردی جاتی ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ سارے کام دین کے نام پر ہو رہے ہوتے ہیں اور عین ممکن ہے یہ سب کرنے والے خلوص دل سے اسے دینی خدمت سمجھ کر کرتے ہوں۔ مگر عملاً یہ مفادات کی جنگ ہوتی ہے جو تھوڑے عرصے میں تعصبات کی جنگ بن جاتی ہے۔ یہ رویہ معاشرے میں بد ترین فرقہ واریت، نفرت اور دہشت کا ماحول جنم دیتا ہے۔ پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو اس وقت ہمارے معاشرے میں مذہب کے نام پر ہو رہا ہے۔
مگر یہ رویہ سب ایک غلط رویہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں یہ حق صرف اور صرف اللہ کے رسولوں کو حاصل ہے کہ وہ یہ کہنے کی جرات کریں کہ من انصاری الی اللہ۔ یعنی کون راہ خدا میں میرا مددگار ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی ذات عین حق ہوتی ہے۔ باقی سارے لوگ عام انسان ہیں۔ وہ غیر معصوم ہیں۔ ان کی ہر رائے غلط اور ہر فہم باطل ہوسکتا ہے۔
وہ یقیناً معاشرے میں کام کریں گے، مگر اپنے کام اور نقطہ نظر کو آخری حق کے طور پر نہیں پیش کرسکتے۔ وہ لوگوں میں اپنی بات بیان کریں گے، مگر انہیں اس بات کی پوری اجازت دیں گے کہ وہ دوسروں کی چیزیں پڑھیں اور جس کی بات درست لگے اسے مان لیں۔ انہیں کسی نقطہ نظر پر تنقید کا حق حاصل ہے، مگر الزام و بہتان کی بنیاد پر کسی دوسرے فرد کو فتنہ قرار دے کر مہم چلانے کا حق کسی صورت حاصل نہیں۔ انہیں لوگوں کو ساتھ ملانے کا حق بلاشبہ حاصل ہے، مگر انہیں اپنی جاگیر سمجھ کر ہر جائز و ناجائز طریقے سے اپنا ذہنی لونڈی غلام بنانے کا حق بالکل نہیں۔
یہ رویہ غلط ہے، غلط ہے، ہر حال میں غلط ہے۔ اگر کوئی عالم یہ جان بوجھ کر کر رہا ہے تو وہ بدترین مجرم ہے۔ اگر وہ انجانے میں یہ سب کررہا ہے تب بھی ایک بڑی خطا کا ارتکاب کر رہا ہے۔ کیونکہ جلد ہی وہ تعصبات کو حق سمجھ کر اور ان کی بنیاد پر دوسروں کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ مہمیں چلا کر اپنی ساری نیکیاں گنوا دے گا۔ جس کے بعد سوائے قیامت کی ذلت و رسوائی کے کچھ نہیں بچے گا۔
اگر عام لوگ اس طرح کے ذہنی لونڈی غلام جان بوجھ کر بن رہے ہیں تو وہ قیامت کے دن اجر کے بجائے خدا کی ناراضی کا سامنا کریں گے۔ اگر انجانے میں کر رہے ہیں تو جلد ہی وہ الزام وبہتان کی کسی مہم کا حصہ بن کر خدا کے قہر کی زد میں آجائیں گے۔ جس کے بعد روز قیامت کی حسرت اور ندامت کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں بچے گا۔