اندھے راہ دکھانے والے ۔ ابویحییٰ
’’استاد! یہ فرمائیے کہ ہم مذہبی لوگوں کی اس قدر کوششوں کے باجود بھی برائی کیوں بڑھے جا رہی ہے؟‘‘، عارف کی مجلس میں آج یہ سوال ایک مذہبی طور پر فعال شخصیت نے اٹھایا تھا۔ عارف نے ایک نظر سائل کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں پوچھا:
’’آپ کی سب سے بڑی دعا کیا ہے؟‘‘، ان صاحب نے ایک لمحے کا توقف کیے بغیر جواب دیا:’’ساری دنیا سے برائی مٹ جائے۔ کل عالم میں اللہ کا دین غالب ہوجائے۔ ہمارے ملک میں اسلام نافذ ہوجائے۔‘‘
عارف نے سر جھکا لیا۔ مجلس میں خاموشی چھا گئی۔ دیر تک جواب نہ آیا تو سائل نے پہلو بدلا۔ مگر وہ دور بیٹھے تھے۔ دیکھ نہ سکے کہ عارف کی آنکھوں سے آنسوں چھلک رہے ہیں۔ خاموشی کی اس دبیز چادر کو آخر کار عارف کی آواز نے توڑ ڈالا۔
’’ہم مذہبی لوگوں کا نشانہ دوسرے ہوتے ہیں۔ مگر ہدایت بندوق کی گولی نہیں ہوتی جس سے دوسروں کو نشانہ بنایا جائے۔ یہ روشنی ہوتی ہے جو دل سے پھوٹتی ہے اورسب سے پہلے ہمارے اپنے وجود کو منور کرتی ہے۔ مگر ہم کبھی اس روشنی کو اپنے رب سے اپنے لیے نہیں مانگتے۔ کبھی رسمی طور پر مانگ لیا تو اپنی شخصیت اور عادات ایسی نہیں بناتے کہ اس روشنی کے مستحق ٹھہریں۔ ہم اپنے تعصبات، گروہوں، نظریات اور تصورات کے اسیر ہوتے ہیں اور انھی کو دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ سو نہ ہم نے ہدایت پانے کو اپنا مقصد بنایا نہ خود کو ہدایت پانے کے قابل بنایا۔ ہم پیغمبر تو ہیں نہیں کہ اللہ پاک ہم پر ہدایت بن مانگے اتار دے۔ اس لیے ہمارے اندر اندھیرا رہتا ہے اور انھی اندھیروں کو ہم دوسروں میں بانٹتے ہیں۔
ہم اندھے راہ دکھانے والے ہیں۔ ہمیں سوال یہ نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری کوششوں کے باوجود برائی کیوں ختم نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہونا چاہیے کہ ہمارا اندھا پن کیسے دور ہوگا۔ کیونکہ جس روز یہ دور ہو گیا ہر جگہ ہدایت کی روشنی پھیل جائے گی۔‘‘