انبیا کی دعوت کا خلاصہ ۔ ابویحییٰ
قرآن مجید کی آخری سورتیں اپنے مضامین کے لحاظ سے بڑی جامع لیکن طوالت میں بہت چھوٹی ہیں۔ ان میں بعض بڑے بڑے تفصیلی مضامین بہت اختصار کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کا قصہ بڑی تفصیل کے ساتھ کئی مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مگر یہی قصہ حضرت موسیٰ کی نبوت سے لے کر فرعون پر عذاب تک صرف دس آیات میں سورہ نازعات (79) میں بیان کر دیا گیا ہے۔
اس مقام پر حضرت موسیٰ کی دعوت کو قرآن دو جملوں میں اس طرح بیان کرتا ہے۔
فَقُلْ ہَل لَّکَ إِلَی أَن تَزَکَّی (18) وَأَہْدِیَکَ إِلَی رَبِّکَ فَتَخْشَی (19)
مطلب کہ فرعون سے پوچھو کہ تجھ میں خواہش ہے کہ تو پاکیزہ بنے۔ میں تجھے تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں کہ تو اس سے ڈرے۔
قرآن مجید نے یہاں بڑے کمال کے ساتھ نہ صرف حضرت موسیٰ بلکہ درحقیقت تمام انبیا کی دعوت کا خلاصہ بیان کر دیا ہے۔ دین کا اصل مقصد یہ ہے کہ انسان اس مادی دنیا اور اپنے حیوانی وجود سے جنم لینے والی اخلاقی آلائشوں سے خود کو بچا کر ایک پاکیزہ زندگی گزارے۔ انبیا کی دعوت کا یہی مقصد ہوتا ہے۔ پھر اس مقصد کے لیے وہ لوگوں کو اپنے رب عظیم کا راستہ دکھا کر ان میں خدا خوفی پیدا کرتے ہیں۔ یہی خدا خوفی انھیں ہر اخلاقی نجاست سے بچاتی ہے۔ چاہے ان کا نفس، شیطان، دنیوی ترغیبات اور حالات کا دباؤ کتنا ہی ان کو برائی کی طرف بلانے والا ہو۔
یہی پاکیزگی نفس جنت کی فلاح کی ضامن ہے۔ یہی خوف خدا ہر برائی سے انسان کو بچاتا ہے۔ چنانچہ جب بھی ہم میں سے کوئی شخص سیدھی راہ سے ڈگمگائے اسے یہ پیغمبرانہ سوال خود سے کرنا چاہیے۔ ہَل لَّکَ إِلَی أَن تَزَکَّی؟ یہ سوال اسے ہمیشہ راہ راست پر رکھے گا۔