امر بالمعروف و نہی عن المنکر ۔ ابویحییٰ
۱ ۔ اسلام اور خلافت
اس آرٹیکل کا پہلا حصہ جہاں سے بات کا آغاز ہوا تھا اوپر دیئے گئے لنک پر دستیاب ہے
جنت وہ مقام ہے جہاں اللہ کے پسندیدہ لوگ ہمیشہ اللہ کی نعمتوں میں جئیں گے۔ یہ جنت درحقیقت اس بات کا بدلہ ہے کہ انسانوں نے تمام تر اختیار کے باوجود اپنے اختیار اور آزادی سے ہر اس جگہ دستبرداری اختیار کرلی جہاں اللہ کا حکم آگیا۔ اپنے جذبات، خواہشات اور تعصبات کو بغیر کسی خارجی دباؤ کے صرف اللہ کی رضا کے لیے قربان کر دیا۔
مثلاً ایک نوجوان کے لیے اس میں بڑی کشش ہوتی ہے کہ وہ بدکاری کا ارتکاب کرے۔ مگر موقع ملنے پر بھی جب وہ یہ کام صرف اللہ کی رضا کے لیے نہیں کرتا تو خود کو جنت کا مستحق بنا لیتا ہے۔ مگر اس کے برعکس ایک شخص جو باجماعت نماز ادا کرے مگر اس کی منشا لوگوں میں نیکی کا تاثر دینا ہو تو ایسا شخص ریاکاری کے جرم میں جہنم کا ایندھن بنے گا۔
یہی جنت کے حصول کا بنیادی فلسفہ ہے۔ اللہ کی مرضی کے آگے اپنی مرضی کو چھوڑ دو۔ اور اللہ کی بندگی صرف اللہ کی رضا کے لیے اختیار کرو نہ کہ دوسروں کو دکھانے یا ان کے ڈر سے نیکی کے کام کرو۔ دین اسلام کے تمام احکام اسی بنیادی فلسفے کے تحت دیے گئے ہیں۔ البتہ دین کے چند احکام ایسے ہیں جو بظاہر اس بنیادی فلسفے کے خلاف لگتے ہیں۔ تاہم ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ان احکام کو جیسے ہی درست زاویے سے دیکھا جاتا ہے چیزیں واضح ہوجاتی ہیں۔
ان احکام میں سب سے بنیادی حکم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ہے۔ عام طور پر اس کا ترجمہ یہ کر دیا جاتا ہے کہ نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔ پھر اس کی جو تشریح کی جاتی ہے، اس سے دین کے اس بنیادی فلسفے کی نفی ہوجاتی ہے جسے ہم نے اوپر بیان کیا ہے۔ یعنی لوگ اپنے اختیار، اپنی مرضی سے دین پر عمل کریں۔ اس کے برعکس دین کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ گویا یہاں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ زبردستی لوگوں پر دین ٹھونسے اور جہاں کسی برائی کو دیکھے زبردستی لوگوں کو اس سے روک دے۔
حقیقت یہ ہے کہ امربا المعروف و نہی عن المنکر کے حکم میں لازماً یہ بات شامل نہیں کہ دوسروں پر زبردستی دین ٹھونسا جائے بلکہ جس طرح یہ عربی زبان میں حکم دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح یہ سمجھانے، خیال ڈالنے، توجہ دلانے، مشورہ دینے اور سجھانے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ جو لوگ عربی ادب سے اس کی مثالیں دیکھنا چاہیں وہ مولانا اصلاحی کی تدبر قرآن (1/410) میں اس کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں۔ تاہم خود قرآن مجید اپنے طریقے پر جگہ جگہ اسی مفہوم کو بالکل واضح کر دیتا ہے۔
مثال کے طور پر شیطان کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ برائی اور فواحش کا ’امر‘ کرتا ہے، (البقرہ 169:2)۔ تاہم قرآن مجید کے دوسرے مقامات سے بالکل واضح ہے کہ شیطان کا یہ امر یا حکم دراصل اس کی دعوت، (ابراہیم 22:14) یا پھر اس کی وسوسہ انگیزی، (الناس 5:114) ہے۔ یہی معاملہ ’نہی‘ کا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ نماز فواحش اور منکر سے روکتی ہے، (العنکبوت 45:29)۔ اس آیت میں ’نہی‘ کے لفظ کو نماز سے منسوب کر کے قرآن مجید نے لفظ کے اس پہلو کو بالکل کھول دیا ہے۔ ظاہر ہے نماز زبردستی کسی سے کوئی کام نہیں کرا سکتی بلکہ مراد یہ ہے کہ نماز انسان میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ وہ رب کا بندہ ہے۔ اگر نماز کے اندر ہے تو پھر نماز سے باہر بھی اسے چاہیے کہ وہ نافرمانی، فواحش اور منکر سے رکے۔ یہی معاملہ شیطان کا ہے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ ہاتھ پکڑ کر کسی سے کوئی برائی نہیں کراتا بلکہ برائی کا خیال دل میں ڈالتا ہے۔ اس سے زیادہ اس کا کوئی اختیار نہیں۔
قرآن مجید میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم اسی پس منظر میں بیان ہوا ہے کہ جس طرح شیاطین اپنا کام مسلسل سرانجام دے رہے ہیں اور لوگوں کو بہکاتے رہتے ہیں، اسی طرح اہل ایمان کو اپنے اطراف کے خیر و شر سے بے نیاز نہیں ہونا چاہیے بلکہ جہاں برائی ہو، اس سے لوگوں کو روکنا اور نیکی کی طرف بلانا چاہیے۔ زبردستی لوگوں پر دین ٹھونسنا، ان کو مجبور کرنا یہ کسی طور اس حکم کا تقاضہ نہیں۔
قرآن مجید ایک دوسرے مقام پر اس حوالے سے مسلمانوں کی حدود اس طرح واضح کرتا ہے۔
اے ایمان والو! اپنی فکر رکھو، اگر تم ہدایت پر ہو تو کسی دوسرے کی گمراہی تمھارا کچھ نہیں بگاڑے گی۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے، پھر وہ تم کو بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو، (المائدہ 105:5)۔
تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہم میں سے ہر شخص کا ایک دائرہ اختیار بھی ہوتا ہے۔ وہاں زبانی کلامی سمجھانا ہماری ذمہ داری کو پورا نہیں کرتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر بعض اوقات یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ برائی سے بالجبر روکا جائے اور نیکی پر پورے اہتمام سے ابھارا جائے۔ قرآن و حدیث کی بعض باتیں درحقیقت اسی دائرے سے متعلق خاص ہیں جن کو غلط فہمی کی بنیاد پر عام کر کے اسے دین کا مطالبہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ زبردستی لوگوں پر اچھائی اور برائی مسلط کی جائے۔ حالانکہ ایسے احکام کا تعلق صرف ان کے دائرہ اختیار سے ہے۔
مثلاً قرآن مجید میں حکمرانوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دیا گیا ہے۔ عام حالات میں اس کے لیے دعوت و تلقین کا طریقہ ہی اختیار کیا جائے گا۔ تاہم بعض جگہ پر قانون کی طاقت استعمال کرنا ناگزیر ہوتا ہے اور حکمران یہ طاقت استعمال نہیں کریں گے تو فساد پھیل جائے گا۔ چنانچہ اسی اصول پر خود اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ وہ قتل، زنا، چوری وغیرہ جیسے جرائم کی سزا دیں۔ مگر ان سب احکام کا تعلق دائرہ اختیار سے ہے۔ ایک قاتل کو قتل کرنا ضروری ہے۔ مگر یہ ایک عام آدمی کا دائرہ اختیار نہیں ہے کہ وہ قاتل کو قتل کرے۔ یہ حکمران کا کام ہے۔
یہی معاملہ ایک باپ یا ماں کا ہے جس کی اولاد اس کا دائرہ اختیار ہے۔ انہیں تلقین سے آگے بڑھ کر بچوں کو برائی سے روکنا اور نیکی پر ابھارنا چاہیے۔ اپنے بچوں کی برائی کو دل میں برا سمجھنا یا زبانی سمجھا دینا کافی نہیں، والدین کو اس سے آگے بڑھ کر قدم اٹھانا ہوتا ہے۔ تاہم اس کا کوئی تعلق دوسروں کے ساتھ نہیں کہ آپ نے اگر انھیں زبردستی برائی سے نہیں روکا تو آپ ایمان کے پہلے درجے سے پھسل کر دوسرے تیسرے درجے پر آجائیں گے۔ دین ایسے غیر فطری مطالبات نہیں کیا کرتا۔
دین اسلام دین فطرت ہے۔ اس کا ہر مطالبہ عقلی اور فطری ہے۔ اس کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ لوگ اپنی مرضی اور خوشی سے اللہ کی بندگی کریں اور خود کو جنت کا حقدار ٹھہرائیں۔ تاہم یہ بھی ایک عقلی اور فطری تقاضہ ہے کہ معاشرے میں خیر و شر کا تصور زندہ رکھا جائے اور مسلمہ برائیوں سے روکا جائے اور مسلمہ نیکیوں کی طرف بلایا جائے۔ دین کا ہر شخص سے یہ مطالبہ ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اثر میں یہ کام کریں۔ البتہ اپنے دائرہ اختیار میں دین یہ عقلی و فطری مطالبہ کرتا ہے کہ برائی سے عملاً روکا جائے اور نیکی پر پوری طرح ابھارا جائے۔ یہ نہیں کیا جائے گا تو معاشرہ ظلم اور فساد سے بھرجائے گا۔ یہ دین اسلام کے حکم امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو دیکھنے کا درست زاویہ ہے۔