الحمدللہ رب العالمین ۔ ابویحییٰ
میرے ایک شناسا کی دعا کا پہلا جملہ کچھ اس طرح ہوتا ہے:
’’یااللہ! جس طرح مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر نعمت جو مجھے یا کسی کو بھی ملی، اس کا دینے والا صرف تو ہے، اسی طرح مجھے اس بات کا بھی کامل یقین ہے کہ جس کو جو ملا وہ اس کی کسی خوبی کی بنا پر نہیں ملا بلکہ صرف تیری خوبیوں کی بنا پر ملا ہے۔ میں تیری ہر نعمت پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تیری ہر خوبی پر تیری حمد بیان کرتا ہوں۔‘‘
بلا شبہ یہ الفاظ معرفت کے الفاظ ہیں۔ یہ اس عظیم حقیقت کا اعتراف ہیں جو عالم میں چار سو پھیلی ہے۔ یہ توحید کی مکمل تعریف ہے۔ خدا کو ایک ماننا جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ اسے ہر نعمت، خوبی اور بھلائی کا سرچشمہ مانا جائے۔ پہلی بات سے پہلو تہی کے نتیجے میں شرک پیدا ہوتا ہے تو دوسری بات کو فراموش کر کے انکارِ خدا یا کم از کم اعراضِ خدا کا ذہن جنم لیتا ہے۔ شرک والی بات سے تو اکثر لوگ واقف ہیں مگر دوسری بات کا شعورعام نہیں اس لیے آج کل اکثر لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ خود کو ان گنت نعمتوں کے درمیان پاتا ہے۔ یہ نعمتیں اس قدر ہیں کہ انسان ساری زندگی انہیں گنتا رہے تو زندگی ختم ہوجائیگی مگر نعمتیں ختم نہیں ہونگی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کی زبان سے مذکورہ بالا الفاظ نکلیں۔ مگرانسان کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ وہ صرف ان نعمتوں کونعمت شمارکرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔ گویا نعمت کا مفہوم اس کے نزدیک یہ ہے کہ وہ بھلائی جو دوسروں کو پہنچی مگر اسے نہ پہنچی۔ یہ سوچ لازماً ایسے اعمال کو جنم دے گی جن کی توقع کسی خدا پرست سے نہیں کی جاسکتی۔ بلا شبہ یہ رویہ اختیار کرنا انسان کی بدقسمتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے پاس ہر حال میں کھونے کے لیے اتنا کچھ ہوتا ہے جس کے مقابلے میں نہ ملی ہوئی یا مل کر چھن جانے والی چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر آج کل کا اہم ترین مسئلہ مالی تنگی ہے۔ لوگوں کے اخراجات آمدنی کے مقابلے میں اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے۔ ایسے میں لوگ شکوے شکایات کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے۔ دوسروں اور خصوصاً زیردستوں سے وہ بداخلاقی سے پیش آنے لگتے ہیں۔ آسمان والے سے بھی انہیں رنجش ہوجاتی ہے۔ ان کے مطابق اس نے انہیں دیا ہی کیا ہوتا ہے۔ وہ اس سے بے پرواہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی شکر گزاری سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اس کی بندگی سے بے رغبت ہوجاتے ہیں۔
ایسے میں کوئی ان سے دریافت کرے کہ اگر آسمان والا انہیں ساری دنیا کے خزانے دیدے اور صرف ان کی آنکھیں چھین لے۔ کیا وہ یہ سودا پسند کریں گے؟ کیا وہ چاہیں گے کہ گاڑیوں میں بیٹھیں لیکن بیساکھیوں کے سہارے؟ کیا وہ لاکھوں روپے کے ایسے بینک اکاؤنٹ رکھنا پسند کریں گے جن کی چیک بکس تو ان کے پاس ہوں مگران پر سائن کرنے والے ہاتھ نہ ہوں؟ کیا وہ چاہیں گے کہ انہیں محل و جائیداد مل جائے لیکن اولاد لے لی جائے؟ کوئی یہ نہیں چاہے گا۔ پھر لوگوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ پچاس سال تک عیش و عشرت کی ایسی زندگی گزارنا پسند کریں گے جس کے بعد، زیادہ نہیں صرف پچاس ہزار سال تک جو آخرت کے ایک دن کے برابر ہیں، آگ میں جلنا پڑے؟
اگر جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے تو پھر ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے گا کہ آپ ایک مہربان کی ناقدری مت کیجیے۔ اس کریم کی احسان فراموشی مت کریں جو آپ کوستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتا ہے۔ جس نے بلاجبر اور بلااستحقاق ہمیں اتنا کچھ دیا ہے جو کسی نے دیا ہے نہ دے سکتا ہے۔ اس دنیا میں جس کو اچھی اولاد ملے وہ خوش نصیب گنا جاتا ہے۔ جسے اچھا شوہر یا بیوی ملے، اچھا استاد ملے، اچھا دوست ملے، اچھا افسر ملے، اچھا ہمسایہ ملے وہ خوش قسمت شمار ہوتا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت بتاتی ہے کہ انسان بڑا خوش نصیب ہے کہ اسے اچھا رب مل گیا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انسانوں کا واسطہ ایک ایسی ہستی سے ہے جس کی طرف سے انہیں ہر حال میں بھلائی ہی پہنچے گی۔ اور یہ بھلائی وہ لوگوں کو ان کی خوبیوں کی بنا پر نہیں دیتا، اپنی خوبیوں کی بنا پر دیتا ہے۔
زندگی میں اور کچھ نہیں کیا تو قرآن کی صرف اس ایک آیت کو سمجھ لیں۔ یہی ایک آیت ہدایت کے لیے کافی ہے۔ یہی ایک آیت نجات کے لیے کافی ہے۔