الفاظ ختم نہیں ہوتے ۔ ابویحییٰ
پچھلے دو تین برس سے دسمبر دو ہزار بارہ میں دنیا کے ختم ہوجانے کا بڑا چرچا تھا۔ میرے علم میں یہ معاملہ آیا تو میں نے اس پر تفصیل سے ایک آرٹیکل لکھا۔ اس آرٹیکل میں اس پیش گوئی کا پس منظر بتانے کے بعد یہ بتایا گیا تھا کہ یہ اسی طرح کا ایک فراڈ ہے جیسا کہ سن دو ہزار کے آغاز پر تمام کمپیوٹروں کے فیل ہوجانے کے حوالے سے پھیلایا گیا تھا۔ میں عام طور پر چیزیں بہت تحقیق کے بعد لکھتا ہوں اور ہر طرح کا نقطہ نظر جاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ اس پس منظر میں میں نے ایک ویب سائٹ پر خود کو رجسٹر کرا دیا تھا جو اس پیش گوئی کو برحق سمجھنے والوں نے بنائی تھی اور وہ اس حوالے سے مسلسل اپ ڈیٹ بھیجتے رہتے تھے۔
دسمبر دو ہزار آیا اور آکر چلا گیا۔ دنیا اور اس کا کاروبار حسب سابق چلتا رہا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اب یہ ویب سائٹ اور اس کی اپ ڈیٹ بند ہوگئی ہوں گی۔ مگر جنوری میں مجھے اسی ویب سائٹ سے ایک ای میل آیا۔ جس میں یہ بتایا گیا کہ گرچہ دسمبر چلا گیا مگر اصل تباہی سن2013 میں آئے گی۔ انہوں نے اپنی سچائی کے حق میں کئی باتیں بھی لکھی تھیں۔
میں نے یہ ای میل پڑھی اور مجھے ہنسی نہیں آئی۔ اس لیے کہ میں جس معاشرے میں کھڑا ہوں وہاں ہر روز میرا واسطہ ایسی تحریروں اور ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جن کے پاس الفاظ ختم نہیں ہوتے۔ ہر سچائی کو بے نقاب اور ہر حقیقت دلائل کے آئینے میں برہنہ دیکھنے کے بعد بھی لوگ مان کر نہیں دیتے۔ لوگ ہر واضح بات کے جواب میں ایک لایعنی بات اور ہر دلیل کے جواب میں غیر متعلق نکتہ آفرینی کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنے جذبات و تعصبات کو آخری سچ سمجھتے اور پوری ڈھٹائی سے اپنی بات دہراتے چلے جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کل قیامت کے دن بھی سچائی کو مان کر نہیں دیں گے۔ ان کے بے معنی الفاظ اُس روز بھی ختم نہیں ہوں گے۔ اسی لیے ان کے منہ پر ذلت کی مہر لگا دی جائے گی اور ان کے اعضا سچ بیان کریں گے۔ مگریہ سچ ان کے کچھ کام نہ آئے گا۔